غزنی/پشاور(امت نیوز/نمائندہ خصوصی)غزنی میں محصور فوجیوں کی مدد کیلئے جانے والے امریکی اور افغان کمانڈوز کے قافلے پر صوبہ میدان وردگ میں طالبان نے حملے کر دیئے جس میں 10 امریکیوں سمیت 35کمانڈوز ہلاک ہو گئے جبکہ قافلے میں شامل 16امریکی ٹینک تباہ کر دیئے گئے امریکی فوج نے ایمبولنس ہیلی کاپٹروں میں افغان فوجیوں کی لاشوں کو لیجانے سے انکار کردیا اور لاشوں کی تذلیل کرتے ہوئے ہیلی کاپٹر سے نیچے پھینک دیا۔افغان میڈیا کے مطابق امریکی اور افغان کمانڈوز کے قافلے پر صوبہ میدان وردگ کے سید آباد کے ملی خیلو،سلطان خیلو،شیرازی بابا، منکلیو اور سالارو علاقوں میں طالبان نے حملے کئے جس میں 10امریکی اور 25افغان کمانڈوز ہلاک ہو گئے۔شیرازی بابا کے علاقے میں طالبان کے ایک راکٹ حملے میں 2امریکی ٹینک تباہ کردیئے گئے جبکہ ملی خیلو میں ایک اور ٹینک کو بارودی سرنگ کے دھماکے سے اڑا دیا گیا۔ امریکی فوجیوں کی سڑک پر پڑی بکھری لاشیں دیکھ کر امریکی فوجی بدحواس ہو گئےاور امریکی طیاروں نے بدحواسی میں ایک افغان فوجی چیک پوسٹ پر بم برسائے جس میں 8افغان فوجی ہلاک اور 3دیگر زخمی ہو گئے۔مقامی عینی شاہدین نے بتایا کہ امریکی فوج نے ایمبولینس ہیلی کاپٹروں میں افغان فوجیوں کی لاشوں کو لے جانے سے انکار کرتے ہوئے لاشیں تذلیل آمیز انداز میں ہیلی کاپٹروں سے نیچے گرادیں۔مقامی لوگوں نے بتایا کہ جب امریکی طیاروں نے بدحواسی میں افغان فوجی چیک پوسٹ پر بمباری کی تو لاشوں اور زخمیوں کو لےجانے کیلئے ہیلی کاپٹر ایمبولینسوں کو منگوالیا جیسے ہی ہیلی کاپٹر پہنچے عین اسی وقت ایک امریکی ٹینک کو دھماکے سے اڑا دیا گیا جس سے ٹینک تباہ اور اس میں سوار امریکی کمانڈوز ہلاک ہو گئے جس پر امریکی فوجیوں نے طیش میں آکر ہیلی کاپٹر سے افغان فوجیوں کی لاشوں کی تذلیل کرتے ہوئے نیچے گرایا اور ہلاک ہونےوالے امریکی کمانڈوز کی لاشیں ڈال کر لے گئے۔غزنی میں محصور فوجیوں کی مدد کیلئے جانے والےامریکی و افغان کمانڈوز کے قافلے کو مسلسل تیسرے روز صوبہ میدان وردگ میں طالبان کے حملوں کا سامنا ہے جس کی وجہ سے وہ آگے نہیں جا سکا اور میدان وردگ میں ہی رکا ہوا ہے اور مسلسل ہلاکتوں کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ادھر طالبان نے اپنی پیش قدمی کے حوالے سے بتایا ہے کہ قلعہ شہادہ نامی سٹریٹجک علاقے پر ان کا قبضہ ہو گیا ہے جبکہ پرانےایئرپورٹ پر بھی کنٹرول حاصل کر لیا ہے ادھر غزنی کے صوبائی اسمبلی کے رکن نصیر احمد فقیری نے غزنی کے محاصرے کے بارے میں افغان وزارت دفاع اور وزارت داخلہ کے دعووں کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ غزنی شہر کے وسط میں ولایت مقام کے ساتھ نیشنل آرمی کے ہیڈکوارٹرز پر قبضے کیلئے طالبان اور افغان فورسز میں شدید لڑائی جاری ہے اس کے ساتھ ساتھ طالبان نے گزشتہ رات ضلع خواجہ عمری پر بھی قبضہ کر لیا ہے۔ادھر نیویارک ٹائمز نے ایک تازہ رپورٹ میں بتایا ہے کہ غزنی شہر کے اکثر چوکوں اورمرکزی علاقے پر اب بھی طالبان کا کنٹرول ہے امریکی اخبار نے لکھا ہے کہ ان کا ایک نامہ نگار شہر کے اندر گیا ہے اور انہوں نے اپنی آنکھوں سے یہ سب کچھ دیکھا ہے کہ طالبان کا شہر کے ہر چوک پر کنٹرول ہے اور سڑکوں پر چیک پوسٹیں بنائی ہوئی ہیں۔رپورٹر نے شہر کے بعض علاقوں میں دیکھا کہ افغان فورسز،طالبان اور شہریوں کی لاشیں اب بھی گلی کوچوں اور سڑکوں پر پڑی ہیں۔ رپورٹر نے بتایا کہ طالبان نے انہیں شہر سے نکلنے کا حکم دیا کیونکہ ان کی زندگی کو جنگ کی وجہ سے خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ غزنی جیسے سٹریٹجک شہر پر قبضہ طالبان کیلئے بڑی کامیابی قرار دیا جا سکتا ہے طالبان نے قبل ازیں کندوز اور فراہ شہر پر بھی قبضہ کیا تھا لیکن وہ غزنی جیسے سٹریٹجک حیثیت نہیں رکھتے تھے رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ غزنی پر طالبان کا قبضہ نہ صرف کابل اور قندہار کے درمیان شاہراہ کو حکومت کیلئے بند کردے گا بلکہ شہروں کی حفاظت کیلئے امریکی اور افغان حکومت کی حکمت عملی کو بھی شکست کا سامنا کرنا پڑے گا۔ نیویارک ٹائمز نے وزارت داخلہ کے ترجمان نجیب دانش کے اس دعوے کو بھی بےبنیاد قرار دیا ہے کہ اب بھی شہر کے مرکزی علاقوں پر سرکاری افواج کا کنٹرول ہے اور شہر کے سقوط کا خطرہ ٹل گیا ہے۔
پشاور(رپورٹ:محمدقاسم)افغان طالبان کے سیاسی دفتر کے سربراہ مولوی عباس استنکزئی کی سربراہی میں چھ رکنی وفد نے ازبکستان کے دارالحکومت تاشقند میں ازبکستان کے وزیرخارجہ اور وزیر داخلہ سمیت روسی حکام سے ملاقات کی ہے جبکہ اس سے قبل افغان طالبان کے وفد نے چین کا خفیہ دورہ کیا جہاں پر چین کی اعلیٰ قیادت سے ان کی ملاقات ہوئی ہے ۔طالبان ذرائع نے امت کو بتایا ہے کہ افغان طالبان کے قطر میں سیاسی دفتر کے سربراہ عباس استنکزئی کی سربراہی میں چھ رکنی وفد نے ازبکستان کا دورہ کیا ہے اور وہاں پر انہوں نے ازبکستان کے وزیر خارجہ اور وزیر داخلہ سمیت کچھ روسی حکام سے بھی ملاقاتیں کی ہیں جس میں افغان مسئلے پر امریکا کے ساتھ براہ راست مذاکرات شروع کرنے ،سرحدی تنازعات ختم کرنے، داعش سمیت افغان طالبان نے اپنی آنے والی پالیسی میں انہیں اعتما د میں لیا ہے تاہم امت کے ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ ملاقات امریکا اور افغان طالبان کے براہ راست مذاکرا ت کے لئے جگہ کے انتخاب کے سلسلے میں ہوئی ہے۔ افغان طالبان کے سیاسی ترجمان سہیل شاہین نے ملاقات کی تصدیق کی ہے تاہم طالبان ذرائع نے امت کو اس امر کی بھی تصدیق کی ہے کہ افغان طالبان کا وفد چند روز قبل چین گیا تھا جہاں پر اس نے چین کے اعلیٰ وفد کے ساتھ ملاقات کی ہے یہ ملاقات چین کے وفد کی قطر میں طالبان کے ملاقات کے بعد ہوئی ہے ۔چین نے افغانستان میں قیام امن کے بعد سرمایہ کاری سمیت ون بیلٹ ون روڈ کے حوالے سے طالبان سے بات چیت کی ہے ۔طالبان ذرائع نے امت کو بتایا کہ طالبان نے سیاسی سرگرمیوں کو مزید وسعت دینے کا فیصلہ کیا ہے اور آئندہ چند ہفتوں میں پاکستان ،ترکی ،روس سمیت سعودی عرب اور دیگر اسلامی ممالک کے دوروں کا بھی امکان ہے تاکہ امریکا سے مذاکرات سے قبل ان ممالک کو بھی اعتماد میں لیا جا سکے۔ طالبان ذرائع کا کہنا ہے کہ طالبان نے ان تمام ممالک پر واضح کیا ہے کہ طالبان کے افغانستان سے باہر کوئی اہداف نہیں ہیں اور طالبان امریکی انخلاء کی صورت میں دنیا کو افغانستان کی سرزمین ہمسایہ ممالک امریکا اور دیگر اسلامی ممالک کے خلاف استعمال نہ ہونے کی ضمانت دینے کے لئے تیار ہیں تاہم اس کے لئے امریکا سمیت دنیا کو افغانستان میں کٹھ پتلی حکومتوں کا ساتھ نہیں دینا ہو گا بلکہ افغان عوام کی نمائندہ حکومت کے ساتھ ہی تعاون کیا جائے ۔ایک طرف طالبان نے سیاسی سرگرمیاں بڑھا دی ہیں تو دوسری جانب طالبان نے افغانستان میں آئے روز بڑے حملوں کی منصوبہ بندی بھی کر لی ہے جس سے امریکا پر دباؤ بڑھ گیا ہے جبکہ آئے روز امریکا اور افغان حکومت کے نقصانات میں بھی اضافہ ہورہا ہے ۔افغانستان میں انتخابات سے قبل طالبان کے بڑھتے ہوئے حملوں نے خدشات پیدا کئے ہیں جبکہ افغان سیاسی پارٹیوں کے سربراہوں نے طالبان کے ساتھ مذاکرات کے لئے سیاسی جماعتوں کی کمیٹی بنانے کا فیصلہ کیا ہے ۔یہ فیصلہ گزشتہ روز کابل میں ایک اجلاس میں کیاگیا جس میں حزب اسلامی کے سوا دیگر جماعتوں نے شرکت کی کیونکہ حزب اسلامی پہلے سے ہی طالبان کے ساتھ رابطوں میں ہے ۔اس وقت طالبان کی اعلیٰ قیادت کی حزب اسلامی کے سربراہ گلبدین حکمت یار اور سابق گورنر ہرات اسماعیل خان کے ساتھ امن کے حوالے سے گزشتہ دو ماہ سے بات چیت جاری ہے۔