زرداری – فریال کو ایف آئی اے کے سامنے پیشی کا حکم

اسلام آباد(نمائندہ خصوصی )سپریم کورٹ نے منی لانڈرنگ کیس میں آصف زرداری اور فریال تالپور کو تفتیش کیلئے ایف آئی اے میں پیش ہونے کی ہدایت کرتے ہوئے اومنی گروپ کے انورمجیدکو بدھ تک عدالت میں پیش ہونے کا حکم دیاہے ۔چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس میں کہا ہے کہ کیس کی تحقیقات کیلئے جے آئی ٹی میں کام کے بندے چاہئیں، نواز شریف والی جے آئی ٹی میں آئی ایس آئی اور ایم آئی والوں کو تڑکا لگانے کیلئے رکھا تھا چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں بنچ نے جعلی بینک اکاؤنٹس سے متعلق کیس کی سماعت کی۔دوران سماعت ڈی جی ایف آئی اے نے عدالت کو بتایا کہ آصف زرداری اورفریال تالپور تفتیش کیلئے پیش نہیں ہورہے، عدالت نے آصف زرداری اور فریال تالپورکوتفتیش کیلئے پیش ہونے کی ہدایت کردی۔ ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن نے عدالت کو بتایا کہ تفتیش میں 15مزیداکاؤنٹس سامنے آئے ہیں،ایک خاتون کے اکاونٹ سے ایک ارب 25کروڑروپے منتقل ہوئے جبکہ اس خاتون کاشوہرکرائے پرموٹرسائیکل چلاتا ہے۔بشیر میمن نے کہا کہ یہ رشوت کے پیسے ہیں جو افسروں اورٹھیکیداروں سے اکٹھے کیے گئے،یہ رقم جعلی اکاونٹس میں ڈالی گئی،چھ سات ماہ بعد یہ اکاونٹس بندکردیئے جاتے۔چیف جسٹس پاکستان نے آصف زرداری کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ لوگوں نے جلوس نکال کرہمیں ڈرادیا ہے،پاک،ناپاک پیسے سے متعلق پوچھناکونسا جرم ہے؟، عدالتوں کی بے حرمتی ہورہی ہے،اس موقع پر فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ جو رویہ اس دن اختیار کیا گیا اس کی مذمت کی ہے،پیپلز پارٹی نے ہمیشہ عدالتوں کی عزت کی ہے، زرداری صاحب نے 11سال جیل کاٹی۔اومنی گروپ کے وکیل نے کہا کہ ساڑھے 12ہزارملازمین کوعید پرتنخواہ دینی ہے، اومنی گروپ کے اکاونٹس منجمد ہونے سے ملازمین کی تنخواہوں کا مسئلہ پیدا ہوگیا ہے ،عدالت سے استدعاہے کہ اکاؤنٹس غیر منجمد کرنے کا حکم دیدیاجو عدالت نے مسترد کردی، ڈی جی ایف آئی نے عدالت کو بتایا کہ تحقیقات میں مزید 15اکاوٴنٹس سامنے آئے ہیں جن میں 6ارب روپے کی ٹرانزیکشن ہوئی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اربوں روپے جعلی اکاوٴنٹس میں کدھر سے آئے اور یہ پیسہ جعلی اکاوٴنٹس سے کدھر گیا۔ اومنی گروپ کے سربراہ انور مجید کے وکیل نے کہا کہ وہ ٹرائل کورٹ میں تمام ٹرانزیکشن کا حساب دیں گے۔دوران سماعت مدنی ٹی وی کا ملازم بھی عدالت میں پیش ہوا اوراپنے بیان میں کہا کہ اس کا اومنی گروپ سے کوئی تعلق نہیں ہے ، اس کے اکاوٴنٹ میں 80کروڑ روپے کہاں سے آئے اس کا علم نہیں ہے۔ انور مجید کی جانب سے وکیل شاہد حامد عدالت میں پیش ہوئے تو چیف جسٹس نے پوچھا کہ انور مجید کدھر ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ وکیل رضا کاظم نے یقین دہانی کرائی تھی کہ انور مجید سمیت دیگر لوگ آئندہ سماعت پر موجود ہوں گے، عدالت کے حکم کی خلاف ورزی پر کسی قسم کی نرمی نہیں دکھائیں گے۔ ہمارے پاس وسیع تر اختیارات ہیں، سپریم کورٹ کے اختیارات کو کسی قانون سے کم نہیں کیا جا سکتا، ہم خصوصی عدالت میں ملزموں کا پیش کردہ چالان ختم کر دیں گے،چالان کو منسوخ کرنے سے قانونی عذر حتم ہو جائیں گے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کیوں نہ ہم بطور سپریم کورٹ از سر نو تحقیقات کروائیں، ہو سکتا ہے خصوصی عدالت میں پیش کردہ چالان ساز باز سے پیش کیا گیا ہو۔چیف جسٹس کے دائیں طرف بیٹھے جسٹس عمر عطا نے فورا کہا کہ قانون کی نظر میں سب برابر ہیں، سپریم کورٹ بھی قانون سے باہر نہیں جا سکتی تاہم عدالت کے سامنے شرائط نہ رکھی جائیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ انور مجید عدالت کو ڈکٹیٹ نہیں کر سکتے۔ وکیل شاہد حامد نے کہا کہ عدالت کے دائرہ اختیار پر سوال اٹھانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، عدالت جمعرات تک مہلت دے۔ وکیل نے کہا کہ اومنی گروپ کے اکاونٹس منجمد ہونے سے ملازمین کی تنخواہوں کا مسئلہ پیدا ہوگیا ہے۔ عدالت نے اومنی گروپ کے اکاونٹس کھولنے کی استدعا مسترد کر دی تاہم انور مجید اور دیگر کو بدھ کو پیش ہونے کی مہلت دے دی۔چیف جسٹس نے کہا کہ دیکھ رہے ہیں جے آئی ٹی تشکیل دے دیں، کسی نے جے آئی ٹی بنانے پر اعتراض کیا تو موقف سن کر فیصلہ دیں گے۔ وکیل نے کہا کہ ایف آئی اے نے اپنی جے آئی ٹی بنائی ہوئی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کسی کے کہنے پر یہ ایشو نہیں اٹھایا، یہ بظاہر کرپشن کا معاملہ لگتا ہے، عدالت نے معاملے پر ازخود نوٹس لیا۔بحریہ ٹاوٴن کے ملک ریاض کے داماد زین ملک عدالت میں پیش ہوئے۔ چف جسٹس نے پوچھا کہ کیا زین ملک تحقیقات میں تعاون کر رہے ہیں؟۔ ایف آئی اے کے ڈی جی نے بتایا کہ زین ملک تحقیقات میں تعاون کر رہا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ بحریہ ٹاوٴن نے نظر ثانی میں 5 ارب روپے جمع کرائے، بدھ کو بحریہ ٹاوٴن کی نظر ثانی اپیل لگا رہے ہیں، بحریہ ٹاوٴن مزید رقم جمع کرائے، ڈیمز کی تعمیر کے لیے بہت پیسہ چاہیے۔ڈی جی ایف آئی اے نے بتایا کہ تحقیقات میں مزید 15اکاوٴنٹس سامنے آئے ہیں، 15 اکاونٹس میں 6ارب کی ٹرانزیکشن ہوئی۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ اربوں روپے جعلی اکاونٹس میں کدھر سے آئے، یہ پیسہ جعلی اکاونٹس سے کدھر گیا۔ انور مجید کے وکیل نے کہا کہ ٹرائل کورٹ میں تمام ٹرانزیکشن کا حساب دیں گے۔ مدنی ٹی وی کا ملازم بھی عدالت میں پیش ہوا۔ ملازم نے کہا کہ میرا اومنی گروپ سے کوئی تعلق نہیں، میرے اکاونٹ میں 80کروڑ کہاں سے آئے علم نہیں۔چیف جسٹس نے پوچھا کہ پچھلی جے آئی ٹی میں کون تھے؟ عدالت کو بتایا کہ چھ افسران تھے جن میں آئی ایس آئی کے بریگیڈئیر نعمان تھے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ وہ تڑکا لگانے کیلئے رکھا تھا، چھوڑیں آئی ایس آئی، ایم آئی والوں کو، ہمیں کام والے بندے چاہئیں۔وفاقی تحقیقاتی ادارے کے ڈائریکٹر جنرل نے بتایا کہ ایک شخص جو نجی چینل میں گرافکس ڈیزائنر ہے اس کے نام پر اکاونٹ کھلوایا گیا، 35ہزار روپے چینل سے تنخواہ لینے والے کے اکاونٹ سے 80کروڑ کی ترسیلات ہوئیں، لاہور کی ایک خاتون کے نام پر جعلی اکاونٹ کھلوایا گیا، اس اکاونٹ سے ڈیڑھ ارب روپے کی ترسیلات ہوئیں، اکاونٹ ہولڈر کا میاں کریم پر موٹرسائیکل رائیڈر ہے۔ ڈی جی ایف آئی اے نے کہا کہ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ رشوت کے پیسے ان اکاونٹس میں ڈالے گئے۔اومنی گروپ کے وکیل شاہد حامد نے کہا کہ جے آئی ٹی کی ساٹھ صفحات کی رپورٹ میں کسی جگہ رشوت یا بدعنوانی ثابت نہیں ہوئی، اومنی گروپ کا سارا پیسہ لیگل ہے اور اس کا آڈیٹ ہوتا ہے۔ وکیل عاصمہ حامد نے کہا کہ بغیر تحقیقات کے الزام تراشی کر کے میڈیا ٹرائل کیا جاتا ہے تاکہ کل ہیڈلائن بنے۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ڈی جی صاحب آپ بغیر تحقیقات کسی پر رشوت کا الزام نہیں لگا سکتے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اتنا بڑا جلوس نکال کر مجھے ڈرایا گیا۔ زرداری کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ جو رویہ اس دن اختیار کیا گیا اس کی مذمت کی ہے، پیپلزپارٹی نے ہمیشہ عدالتوں کی عزت کی ہے، زرداری صاحب نے 11سال جیل کاٹی۔ چیف جسٹس نے ڈی جی ایف آئی اے پوچھا کہ کیا فریال تالپور اور آصف زرداری تحقیقات میں تعاون کر رہے ہیں؟۔ فاروق ایچ نائیک نے جواب دیا کہ جب بھی ایف آئی اے بلائے گئی وہ حاضر ہو جائیں گے ۔واضح رہے کہ چیف جسٹس پاکستان نے گزشتہ سماعت پر آصف زرداری اور ان کی ہمشیرہ کے خلاف منی لانڈرنگ کیس میں پاناما طرز کی جے آئی ٹی بنانے کا عندیہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ اس کیس میں جے آئی ٹی بنادیتے ہیں جس سے دودھ کا دودھ اور پانی کاپانی ہو جائے گا اور ایسی جے آئی ٹی بنائیں گے جیسی نواز شریف کے خلاف بنائی تھی۔

Comments (0)
Add Comment