اسلام آباد(نمائندہ خصوصی) اسلام آباد ہائیکورٹ میں نوازشریف اور دیگر کی سزا معطلی کی درخواستیں سماعت کیلئے منظور کر تے ہوئے نیب کے درخواستوں کے قابل سماعت ہونے کے خلاف تمام تراعتراضات مستردکردیے ہیں اور فریقین کوہدایت کی ہے کہ جمعرات تک کیس میں دلائل کومکمل کیاجائے ۔فیصلہ جمعرات کومحفوظ کیے جانے کاامکان ہے۔اسلام آباد ہائیکورٹ کے بینچ نے نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کی سزا معطلی کی درخواستوں کی سماعت کی۔ جسٹس اطہر من اللہ کا فریقین کے وکلاء سے مکالمہ بھی ہوا۔جسٹس اطہر من اللہ نے کہاکہ گر آپ دونوں کو بینچ پر مکمل اعتماد ہے تو ہم سماعت شروع کریں۔خواجہ حارث، امجد پرویز اور سردار مظفر نے جواب دیاکہ ہمیں بینچ پر مکمل اعتماد ہے۔ نیب کی طرف سے سزا معطلی کی درخواستوں کی مخالفت کرتے سردار مظفرنے کہاکہ ملزمان نے سزا کیخلاف اپیل کررکھی ہے جو سماعت کیلئے بھی مقرر ہے، ملزمان کی اپیل موسم گرما کی تعطیلات کے بعد سماعت کیلئے مقرر ہے۔ عدالت نے نیب کا اعتراض مسترد کردیا اور جسٹس اطہر نے کہاکہ سزا معطلی کی درخواستیں ابھی سن لیتے ہیں، سردار مظفرنے کہاکہ سزا معطلی کی اپیل چھ ماہ کے بعد سنی جاسکتی ہے، جسٹس اطہر نے کہاکہ اگر آپ کی بات ٹھیک ہے تو کیا تمام ہائیکورٹس قانون کی خلاف ورزی کررہی ہیں؟ حال ہی میں مشال خان کیس میں ملزمان کی سزا معطلی درخواست منظور ہوئی عدالت کی سردار مظفر کو ہدایت کی کہ جو عدالتی حوالے آپ دے رہے ہیں اس کتاب سے کاپی کراکے ہمیں دیں، تین سال سے کم سزا ہو تو تمام ہائیکورٹس معطلی کی درخواست منظور کرلیتے ہیں، جسٹس خواجہ حارث نے کہاکہ معلوم ذرائع آمدن کا پتہ نہیں لگایا گیا ،اثاثوں کی مالیت کا پتہ بھی نہیں لگایا گیا ، دونوں چیزوں کا پتہ لگائے بغیر آمدن سے زائد اثاثہ قرار دیا گیا ، جسٹس اطہر نے کہاکہ آپ کی بات میں وزن لگ رہا ہے ہمیں ذرا معاملہ سمجھنے دیں،1993 میں فلیٹس کتنی رقم میں خریدے گئے، کیا یہ معلوم ہے ؟ سردار مظفرنے کہاکہ یہ معلوم نہیں ۔ جسٹس اطہر نے کہاکہ سزا کس شق کے تحت ہوئی ہے وہ پڑھ لیتے ہیں۔ سردار مظفرنے کہاکہ نائن اے فائیو کے تحت سزا ہوئی ہے، اس پرعدالت نے سردار مظفر سے استفسارکیاکہ آپ نے نائن اے فور میں بریت کو چیلنج نہیں کیا؟ اس کا مطلب ہے کہ آپ نے یہ تسلیم کرلیا کہ فلیٹس کرپشن یا بد نیتی سے نہیں خریدے گئے ؟۔سردار مظفرنے کہاکہ میں عدالت کی معاونت کروں گا کہ ہم نے نائن اے فور میں بریت کو کیوں چیلنج نہیں کیا۔عدالت نے کہاکہ آپ یہ تو نہیں کہ سکتے کہ جائیداد کرپشن اور ایمبزلمنٹ سے بنائی گئی،سردار مظفرنے کہاکہ ہم پھر بھی کہہ سکتے ہیں کہ جائیداد کرپشن سے بنائی گئی۔عدالت نے کہاکہ پھر بھی آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ کرپشن سے بنائے گئے۔جسٹس اطہرنے کہاکہ آپ نے چارج دو شقوں کے تحت فریم کیا ایک کے تحت بریت ہوگئی، سردار مظفرنے کہاکہ نائن اے فور سے متعلق ہمارے پاس کافی شواہد موجود نہیں تھے، عدالت نے اس میں بری کردیا۔ جسٹس اطہرنے کہاکہ یہ تو آپ نیب سے پوچھیں کہ نائن اے فور میں بریت کو چیلنج کیوں نہیں کیا، ہم نے فیصلہ پورا پڑھنا ہے، یا تو آپ نائن اے فور میں بریت کو چیلنج کرتے، یا تو آپ صرف نائن اے فائیو کے تحت ٹرائل کرتے، نائن اے فور شامل ہی نہ کرتے، نائن اے فور کے تحت بریت سے ثابت ہو گیا کہ پراپرٹی کرپشن سے نہیں خریدی گئی، ملزمان صرف اپنی جائیداد کو ثابت نہیں کر سکے۔جسٹس اطہر من اللہ نے سردار مظفرسے پوچھاکہ کیا مریم نواز بے نامی دار ہیں یا زیر کفالت ہیں۔ سردار مظفر کے دونوں کہنے پر عدالت میں قہقہے گونج اٹھے ،عدالت نے کہاکہ جب بریت چیلنج نہ کرکے نیب نے مان لیا کہ درخواست گزار کرپٹ نہیں ہے تو؟سردار مظفرنے کہاکہ نائن اے فائیو میں ملزمان کو سزا ہوئی ہے وہ بھی کرپشن ہے۔جسٹس اطہر من اللہ نے پوچھاکہ نائن اے فائیو کوئی ون ویلنگ سے متعلق تو ہے نہیں، ٹرسٹ ڈیڈ کے بوگس ہونے سے مریم نواز نے کیا جرم کیا ؟ جسٹس اطہرنے کہاکہ بے نامی پراپرٹی ہونا اور بے نامی دار ہونا کوئی جرم نہیں ، ٹرسٹ ڈیڈ کو جعلی بھی مان لیا جائے تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے،اس ڈیڈ سے معاونت کیسے ثابت ہو جاتی ہے؟ جسٹس میاں گل نے کہاکہ کیا مریم نواز کو عوامی عہدیدار کے طور پر بھی سزا دی جاسکتی ہے؟ سردار مظفرنے کہاکہ ہم نے دستاویزات سے ثابت کیا کہ مریم نواز نیلسن نیسکال کی بینفشل آنر ہیں، مریم نواز نے جعلی ٹرسٹ ڈیڈ میں خود کو ان کمپنیوں کی ٹرسٹی ہیں، ہم نے ثابت کردیا کہ مریم نواز نوازشریف کے بی ہاف پر جائیداد ہولڈ کرتی ۔جسٹس اطہرنے کہاکہ سن تو لیں سردار صاحب، مجھے کیس سمجھ لینے دیں، جب نیب نے مان لیا کہ 9 اے 4 میں ملزمان بری ہیں تو مطلب کہ کوئی بھی پراپرٹی کرپشن سے حاصل نہیں کی گئی، اب 9 اے 5 میں یہ کہہ رہے ہیں کہ وہ پراپرٹیز وہ ثابت نہیں کر سکے،9 اے فور میں چارج فریم ہوا اور اس میں ملزمان کو بری کر دیا گیا تو کیا مطلب ہوا۔جسٹس اطہر من اللہ نے کہاکہ ٹرسٹ ڈیڈ جعلی بھی ہو تو بھی مریم نواز بے نامی دار ڈبکلیر ہوں گی۔آپ یہ کہتے ہیں کہ مریم نواز کو صرف اس ایکسپرٹ رپورٹ کے تحت سزا ہوئی؟ سردار مظفرنے کہاکہ نہیں سزا کا صرف یہ اکیلا گراوٴنڈ نہیں تھا،9اے 5-12 میں سزا ہوئی ہے۔عدالت نے کہاکہ سردار صاحب سمجھنے کی کوشش کریں آپ اس فیصلے کو تسلیم کرچکے ہیں ،سردار مظفرنے کہاکہ ہم نے چیلنج نہیں کیا وہ الگ معاملہ ہے لیکن یہاں نائن اے فور میں سزا معطلی کا کیس ہے،اس پر عدالت نے کہاکہ ٹرائل کورٹ نے نوازشریف کے مالک ہونے کا کہا ہے مریم نواز کا نہیں،ٹرائل کورٹ نے واضح لکھا ہے کہ نواز شریف جائیداد کے اصل مالک ہیں۔ جسٹس اطہرنے کہاکہ اگر اس انگریزی کی کوئی اور انگریزی بن سکتی ہے تو بتادیں،۔سردارمظفرنے کہاکہ جی اور بن سکتی ہے میں ججمنٹ پڑھ کے بتاتا ہے، مریم نواز نے بینفشل آنر ہوتے جائیداد چھپانے کیلئے جعلی دستاویز جمع کرائی، اگر آپ مجھے آپریٹو پورشن پڑھنے دیں گے تو بات بنے گی۔جسٹس اطہرنے کہاکہ آپ اپیل فائل کردیں ۔ دلائل سننے کے بعدعدالت عالیہ نے درخواستیں سماعت کے لیے منظورکرلیں۔