کان سے مزید 10 مزدوروں کی لاشیں نکال لی گئیں – 5 بدستور دفن

کوئٹہ (نمائندہ خصوصی ) کوئٹہ کے نواحی علاقے سنجدی میں کوئلہ کان میں ہونیوالے دھماکے میں جاں بحق ہونیوالے کانکنوں کی تعداد12ہو گئی ،جبکہ 16 کانکنوں کو بے ہوشی کی حالت میں نکال لیا گیا اور طبی امداد کے لئے کوئٹہ کے مختلف اسپتالوں میں منتقل کر دیا گیا، جبکہ 5 ابھی تک کان میں پھنسے ہوئے ہیں۔ جاں بحق کانکنوں کا تعلق خیبر پختونخوا کے مختلف علاقوں شانگلہ، سوات اور دیر سے بتایا جا تاہے۔ امدادی کارکنوں نے پیر کی صبح ساڑھے چار بجے 10 کانکنوں کی لاشیں کان سے نکال لی تھیں اور 5افراد کو نکالا جانا ابھی باقی ہے، دیہاڑی پر تھے۔کانکن پرائیویٹ کول کمپنی کیلئے کام کر رہے تھے۔ بلوچستان کے چیف انسپکٹر کول مائنز افتخار احمد نے بتایا کہ اتوار کو 13 کان کن سنجدی کے علاقے میں واقع ایک کان سے کوئلہ نکالنے کے لیے ساڑھے چار ہزار فٹ زیرِ زمین گئے تھے جن کے کام کے دوران کان میں چنگاریاں پیدا ہونے سے دھماکہ ہوا دھماکے سے کان بیٹھ گئی تھی اور واقعے کے فورا ًبعد ہی امدادی سرگرمیاں شروع کردی گئی تھیں۔ 5افراد کو نکالا جانا ابھی باقی ہے جو ان کے بقول قوی امکان ہے کہ زندہ نہیں بچے ہوں گے افتخار احمد نے بتایا کہ کان میں بہت زیادہ گیس بھری ہوئی ہے جس کے باعث پہلے گیس کے اثر کو ختم کیا جائے گا اور اس کے بعد باقی کان کنوں کو نکالنے کی کو شش کی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ ہلاک ہونے والے 8مزدوروں کی میتوں کو ان کے آبائی علاقوں کو روانہ کردیا گیا ہے۔ 7مزدوروں کا تعلق خیبر پختونخوا کے اضلاع سوات اور دیر جب کہ ایک کا تعلق کوئٹہ سے تھا۔ چیف انسپکٹر کول مائنز کا کہنا تھا کہ اس وقت ان کی پوری توجہ کان میں موجود لاشیں نکالنے پر مرکوز ہے اور واقعے کی تحقیقات لاشیں نکالنے کے بعد کی جائیں گی۔ بلوچستان کے 5اضلاع کوئٹہ، لورالائی، سبی، بولان اور ہرنائی میں کوئلے کے کروڑوں ٹن ذخائر ہیں جن کو نکالنے کے لیے ڈھائی ہزار سے زائد کانیں بنائی گئی ہیں ان کانوں سے 40 ہزار سے زائد مزدور سالانہ 90 لاکھ ٹن سے زیادہ کوئلہ نکالتے ہیں ان کانوں میں اکثر و بیشتر حادثات پیش آتے رہتے ہیں۔ رواں سال مئی میں ضلع کوئٹہ کے نواحی علاقے میں موجود کوئلے کی کانوں میں دو دھماکوں سے 23 کان کن، اپریل میں ضلع قلات کے علاقے میں ایک کان میں دھماکے سے 6کان کن جب کہ گزشتہ سال ستمبر میں ایک ہفتے کے دوران پیش آنے والے 3مختلف حادثات میں 8کان کن ہلاک ہوگئے تھے۔ کان کنوں کی انجمن کا کہنا ہے کہ گزشتہ چند برسوں کے دوران کان کے اندر گیس بھرنے اور دیگر وجوہات کے باعث دو درجن سے زائد واقعات پیش آچکے ہیں جن میں 100 سے زائد کان کن لقمہ اجل بن چکے ہیں ۔انجمن کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ بیشتر کوئلہ کانوں میں تازہ ہوا کے اندر آنے اور کان میں دھماکہ ہونے یا آگ لگنے یا دیگر ہنگامی صورتِ حال میں نکلنے کے لیے متبادل راستہ نہیں ہوتا جو حادثات کی اہم وجوہات ہیں حکومت بلوچستان کے متعلقہ محکمے کا موقف ہے کہ کانوں کے لیے طے شدہ قواعد و ضوابط پر عمل نہ کرنے والے کان مالکان پر جرمانہ کیا جاتا ہے اور اس حوالے سے موجود تمام قوانین پر عمل درآمد کرایا جاتا ہے۔

Comments (0)
Add Comment