غزنی کے نواح میں مزید 4 اضلاع طالبان قبضے میں آگئے

کابل (امت نیوز) غزنی پر مکمل قبضے کیلئے طالبان کی افغان فوج سے لڑائی پیر کو چوتھے روز بھی جاری رہی۔ کابل حکومت اور امریکی فوج کی جانب سے سقوط غزنی کا امکان مسترد کئے جانے کے باوجود طالبان نے غزنی کے نواح میں مزید 4اضلاع پر قبضے کر لئے ہیں۔غزنی کی صوبائی اسمبلی کے ارکان کا کہنا ہے کہ گورنر ہاؤس، فوجی و پولیس ہیڈ کوارٹرز کے سوا باقی تمام سرکاری عمارتوں پر طالبان کا قبضہ ہوگیا ہے۔ طالبان نے مزید 800 تازہ دم طالبان غزنی پہنچانے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ غزنی میں کئی سرکاری عمارات کو محصور افغان فوجیوں نے نذر آتش کیا۔ اقوام متحدہ نے غزنی میں انسانی المیہ کے رونما ہونے کا خدشہ ظاہر کر دیا ہے۔ اقوام متحدہ نے غزنی میں لڑائی کے دوران شہریوں کی ہلاکتیں، غذا اور ادویات کی کمی پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ افغان حکومت نے 4 روزہ لڑائی کے دوران 70پولیس اہلکاروں سمیت 100 فوجیوں اور30 عام شہریوں کی ہلاکت، امریکی فضائیہ کی بمباری میں12 اہم کمانڈروں اور بعض غیر ملکی جنگجوؤں سمیت 194 طالبان کی ہلاکت کے دعوے کئے ہیں۔ پیر کو دار الحکومت کابل میں الیکشن کمیشن آفس پر خود کش دھماکے میں ایک پولیس اہلکار جاں بحق اور دوسرا زخمی ہوگیا۔ دھماکے کے وقت 35امیدواروں کی نااہلی کیخلاف احتجاج جاری تھا۔ تفصیلات کے مطابق امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے کہا ہے کہ غزنی پر قبضے کی لڑائی کے باوجود طالبان نے صوبہ غزنی کے متعدد دیہی علاقوں پر قبضے کرلئے۔ غزنی کی لڑائی کے دوران شہر کے اطراف میں 4اضلاع پر قبضے کئے جا چکے ہیں۔ بیشتر علاقے زیادہ لڑائی لڑے بغیر ہی طالبان کی جھولی میں جاگرے ہیں۔ صوبے کے18 میں سے 2 اضلاع ہی حکومتی کنٹرول میں ہیں۔ حکومتی اہلکاروں کے فرار سے خالی ہونے والے کئی مقامات پر طالبان کا اثر و رسوخ مزید مستحکم ہوچکا ہے۔ غزنی قبضے میں آنے پر پورا صوبہ 17برس بعد طالبان کے کنٹرول میں آسکتا ہے۔ غزنی سے موصولہ اطلاعات کے مطابق شہر میں طالبان کی افغان فورسز اور امریکی افواج سے لڑائی پیر کو چوتھے روز بھی جاری رہی۔ عالمی میڈیا کے مطابق افغان نیشنل سیکورٹی ڈائریکٹوریٹ کی جاری تصاویر میں افغان فوجیوں کو غزنی میں گشت کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے، جبکہ عالمی خبر ایجنسیوں کی رپورٹ کے مطابق طالبان نے شہریوں کے گھروں کا رخ کرلیا ہے، جہاں سے انہوں نے پانی و چائے کے علاوہ زخمیوں کو لے جانے اور دیگر سامان کو تحویل میں لینا شروع کر دیا ہے۔ شہر میں بجلی تا حال بند ہے۔ مواصلاتی نظام صحیح سے کام نہیں کر رہا جس کی وجہ سے اطلاعات کی تصدیق میں دقت کا سامنا ہے۔ شہر میں کھانے پینے کی اشیا کی قیمتوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ غزنی کے ایک صحافی فیاضا فیاض نے کابل پہنچنے پر عالمی میڈیا کو بتایا کہ ہر شخص غزنی چھوڑ کر بھاگنا چاہتا ہے۔ اکثر لوگ گھروں کے تہہ خانوں میں چھپے ہوئے ہیں کیونکہ ایک گلی سے دوسری گلی میں گولیاں چل رہی ہیں۔ غزنی میں موجود بعض افراد کا کہنا ہے کہ اتوار کو رات گئے تک طالبان اور سرکاری اہلکاروں کی لاشیں سڑکوں پر پڑی رہی ہیں۔ طالبان نے کئی سرکاری عمارتوں کو آگ بھی لگا دی ہے۔ اقوام متحدہ کے کوارڈینیٹر رک پیپر کورن کا کہنا ہے کہ غزنی میں عام شہری طالبان و فوج کی لڑائی میں پھنس کر رہ گئے اور ان کی جانوں کو خطرات لاحق ہیں۔ اسپتالوں میں ادویات اور شہر میں غذا کی شدید کمی ہوگئی ہے۔ ادھر کابل میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے افغان وزیر دفاع طارق شاہ بہرامی اور وزیر داخلہ اویس احمد برمک کا کہنا تھا کہ غزنی میں 4روزہ لڑائی کے دوران 100افغان فوجی، 30 شہری اور 150طالبان مارے جا چکے ہیں۔ امریکی بمباری میں 12 اہم کمانڈروں اور غیر ملکیوں سمیت 194طالبان بھی مارے جا چکے ہیں۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ لڑائی میں چیچن و پاکستانی بھی شامل ہیں۔ امریکی فوج نے طالبان حملے اور محاصرے کی شدت گھٹا کر پیش کرنا شروع کردی ہے۔ امریکی فوج کے ترجمان لیفٹیننٹ کرنل مارٹن او ڈینل نے ایک بیان اور امریکی میڈیا کو دیئے گئے انٹرویو میں طالبان کا غزنی محاصرہ ناکام قرار دیتے ہوئے کہا کہ شہر اب بھی افغان فوج کے کنٹرول میں ہے اور وہ ہائی وے پر قابض ہے۔ سوائے ہیڈلائنز میں جگہ ملنے کے سوا طالبان کو غزنی میں کوئی حربی، آپریشنل و اسٹریٹیجکل کامیابی ملی ہے اور نہ ہی وہ اس قابل ہیں کہ افغان فوج کے ہم پلہ ہی ثابت ہوں۔افغان وزارت داخلہ کے ترجمان نجیب دانش کا کہنا ہے کہ بھیجی گئی کمک غزنی پہنچ چکی ہے اور تازہ دم دستے شہر کو کلیر کرنے کی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ صوبائی کونسل غزنی کے رکن ناصر فاروقی کے مطابق صورتحال انتہائی تباہ کن ہے۔فوجی تعاون کے بغیر صرف پولیس و افغان خفیہ اہلکار ہی طالبان کا مقابلہ کر رہے ہیں۔

Comments (0)
Add Comment