اسلام آباد/ لاہور (نمائندہ امت /خبر ایجنسیاں) اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی کے الیکشن میں تحریک انصاف اور اپوزیشن کے درمیان پہلا ٹاکرا آج ہوگا، دونوں طرف کے امیدواروں نے اپنے کاغذات نامزدگی جمع کرا دیئے ہیں۔ خفیہ ووٹنگ کے باعث تحریک انصاف کیلئے اپنے امیدواروں کو کامیاب کرانا کسی کڑے امتحان سے کم نہیں اور اسے اپنے خریدے گھوڑے بدکنے کا خوف بھی ستا رہا ہے۔ فواد چوہدری نے ایک بیان میں مبینہ ہارس ٹریڈنگ کا واویلا بھی کیا تھا۔ پی ٹی آئی ترجمان کا کہنا تھا کہ ہمارے کچھ ایم این ایز سے رابطے کئے گئے ہیں، جن کی تحقیقات کررہے ہیں۔ دوسری جانب اپوزیشن کی جانب سے بھی کوشش کی جارہی ہے کہ 1985کی تاریخ دہرائی جائے، جب قومی اسمبلی میں اس وقت کے صدر ضیاالحق کی آشیر باد سے اکثریتی گروپ کے نامزد امیدوار خواجہ صفدر (خواجہ آصف کے والد) اسپیکر کا انتخاب ہار گئے تھے اور آزاد گروپ کے حمایت یافتہ فخرامام اسپیکر منتخب ہوگئے تھے۔ فخرامام کو 1986میں تحریک عدم اعتماد لاکر ہٹایا گیا تھا اور حامد ناصر چٹھہ اسپیکر بنے تھے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ 1985کے بعد فخرامام پہلی مرتبہ قومی اسمبلی پہنچے ہیں۔ انہوں نے الیکشن آزاد حیثیت سے لڑا تھا اور منتخب ہونے کے بعد وہ تحریک انصاف میں شامل ہوچکے ہیں۔اپوزیشن امیدوار خورشید شاہ کی کامیابی کے لئے مفاہمت اور جوڑ توڑ کے بادشاہ آصف زرداری خود ارکان اسمبلی اور مختلف جماعتوں سے رابطے کررہے ہیں۔ منگل کے روز تحریک انصاف کی جانب سے اسپیکر قومی اسمبلی کے لیے اسد قیصر اور ڈپٹی اسپیکر کے لیے قاسم سوری نے اپنے کاغذات نامزدگی سیکریٹری قومی اسمبلی کے پاس جمع کرا دیئے۔ پیپلز پارٹی کے رہنما خورشید شاہ بھی پارٹی رہنماؤں کے ہمراہ پارلیمنٹ ہاوس پہنچے، جہاں انہوں نے اسپیکر قومی اسمبلی کے لیے اپنے کاغذات نامزدگی جمع کرائے، وہ متحدہ اپوزیشن کے نامزد امیدوار ہیں، جبکہ ڈپٹی اسپیکر کے لئے اپوزیشن کے جانب سے مولانا اسد محمود نے کاغذات نامزدگی جمع کرائے ہیں۔ سیکریٹری قومی اسمبلی نے خورشید شاہ کے کاغذات نامزدگی وصول کیے۔ اس موقع پر دونوں کے درمیان دلچسپ مکالمہ بھی ہوا۔ سیکریٹری قومی اسمبلی کا کہنا تھا کہ آپ کے آنے سے پہلے ہم بلا مقابلہ انتخاب کا طریقہ دیکھ رہے تھے، جس پر خورشید شاہ نے مسکراتے ہوئے کہا کہ یہ تو میرے خلاف سازش تھی۔ اسپیکر قومی اسمبلی کے لیے خورشید شاہ کے تجویز کنندگان میں ان کے دیرینہ دوست سید نوید قمر، رمیش لعل، شازیہ ثوبیہ، مسرت مہیسر اور شاہدہ رحمانی شامل ہیں۔امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ اسپیکر شپ کے لیے پی ٹی آئی کے اسد قیصر اور متحدہ اپوزیشن کے خورشید شاہ کے درمیان کانٹے کا مقابلہ ہوگا۔ کاغذات نامزدگی جمع کرانے کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے خورشید شاہ کا کہنا تھا کہ 25سال سے پارلیمنٹ میں ہوں اور جتنے ممبران پارلیمنٹ میں آرہے ہیں سب سے اچھا تعلق ہے۔ خورشید شاہ نے کہا کہ ساری سیاسی جماعتوں کو ساتھ لے کر چلنا چاہتے ہیں۔ پیپلز پارٹی نے ہمیشہ جمہوریت کی بالادستی کے لیے بات کی ہے۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ ارکان ووٹ کا فیصلہ حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے کریں گے۔ ذرائع کے مطابق خفیہ ووٹنگ کے باعث اسد قیصر اور قاسم سوری کو منتخب کرانا کسی کڑے امتحان سے کم نہیں، کیونکہ خورشید شاہ کی کامیابی کے لئے آصف زرداری نے خود رابطہ مہم کی کمان سنبھال لی ہے اور انہوں نے تحریک انصاف میں شامل ہونے والے آزاد ارکان، بعض خواتین ارکان سمیت تحریک انصاف کی اتحادی جماعتوں کے رہنماؤں سے بھی رابطے کئے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ متحدہ قومی موومنٹ جو ہمیشہ وکٹ کے دونوں جانب کھیلنے پر یقین رکھتی ہے کو زرداری نے یقین دلایا ہے کہ اگر وہ خورشید شاہ کو ووٹ دے تو کراچی میں اس کی شہری حکومت کو بڑے پیمانے پر ترقیاتی فنڈز دیئے جاسکتے ہیں۔اس کے علاوہ بلوچستان کے ارکان اسمبلی سے بھی زرداری کے رابطے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ پی پی کی صفوں میں کافی اطمینان پایا جاتا ہے اور پی پی کے رہنما پرامید ہیں کہ خورشید شاہ اسپیکر منتخب ہوجائیں گے، لیکن مولانا فضل الرحمن کے فرزند اپوزیشن کی جانب سے ڈپٹی اسپیکر کا انتخاب جیت پاتے ہیں یا نہیں، اس بارے میں حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جاسکتا، تاہم ن لیگ اور پی پی میں وزارت عظمیٰ کے امیدوار پر پیدا ہونے والے اختلافات زرداری کی گیم پلٹ سکتے ہیں، اگر ن لیگ نے حساب چکتا کرنے کی ٹھان لی تو اس صورت میں زرداری کے رابطے کسی کام نہیں آئیں گے۔ ذرائع کے مطابق ن لیگ میں اس حوالے سے مشاورت ہو رہی ہے کہ پی پی کی جانب سے شہباز شریف کے نام پر اعتراض کے بعد اسپیکر کے انتخاب کا بائیکاٹ کر دیا جائے۔ دوسری جانب تحریک انصاف کے رہنماؤں کو یقین ہے کہ اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کے لئے ان کے امیدوار بآسانی منتخب ہوجائیں گے۔ اس حوالے سے تحریک انصاف کے ذرائع نے بتایا کہ انہوں نے جو حکمت عملی بنائی ہے اس کے مطابق اسد قیصر اور قاسم سوری کو 185سے زیادہ ووٹ ملیں گے۔ ذرائع کے مطابق اپوزیشن کی صفوں میں دراڑ ڈالنے کے لئے تحریک انصاف کے اتحادی چوہدری برادران اپنے تعلقات کو استعمال کررہے ہیں، اگر آج اپوزیشن کے امیدواروں کو قومی اسمبلی میں ان کی عددی قوت کے حساب سے کم ووٹ ملے تو یہ اس بات کا اشارہ ہوگا کہ ن لیگ کے ارکان حکومتی منڈھیر پر بیٹھنے کے لئے تیار ہیں۔ادھرخیبرپختون اسمبلی کا اجلاس ایک دن کے وقفے کے بعد آج دوبارہ ہو گا جس میں سپیکر و ڈپٹی سپیکر کا انتخاب کیا جائے گا ۔تحریک انصاف کی جانب سے سپیکر کیلئے ایبٹ آباد سے منتخب ہونے والے مشتاق غنی اور ڈپٹی سپیکر کیلئے پشاور سے صوبائی اسمبلی کی نشست پر کامیاب ہونے والے محمود جان امیدوار ہیں جبکہ اپوزیشن نے خیبر پختون سمبلی میں سپیکر کے عہدے کیلئے اے این پی کے مرکزی رہنما اور سینئر پارلیمنٹرین لائق محمد خان اور ڈپٹی سپیکر کے لئے ن لیگ کے جمشیدمہمند کو نامزد کیا ہے ۔ اسمبلی میں دو تہائی اکثریت کی بدولت تحریک انصاف کی سپیکر و ڈپٹی سپیکر کے عہدوں پر کامیابی یقینی ہے ۔