کراچی(رپورٹ: نواز بھٹو) چیف سیکریٹری سندھ نےمحکمہ بلدیات کی جانب سے خلاف ضابطہ گریڈ 17 میں بھرتی پر برطرف 63 افسروں کو ریکارڈ نہ ہونے کی وجہ سے قبول کر نے سے انکار کر دیا ہے ۔محکمہ بلدیات کے موقف پر چیف سیکریٹری نے معاملہ اینٹی کرپشن کو بھیجتے ہوئے 25اگست تک رپورٹ طلب کر لی ہے ۔اینٹی کرپشن حکام سے بھرتی غیر قانونی ثابت ہونے پر ملوث افراد کے خلاف کارروائی کی سفارشات بھی طلب کرلی ہیں ۔چیف سیکریٹری سندھ نے عدالتی احکامات کے8ماہ بعد سال 2012.13میں پبلک سروس کمیشن بائی پاس کر کے خلاف ضابطہ گریڈ 17میں بھرتی اور بعد میں برطرف ہونے والے63ٹی ایم اوز کےمعاملے کی ذاتی سماعت کی ۔برطرف ریاض تھہیم، ارشاد علی ، عبدالستار، ساجد منگی، ذوالفقار سیال، شاہ محمد، عمران سمیت دیگر نےاپنی بھرتی کو قانونی قرار دیا ۔ اس پر محکمہ بلدیات کے حکام نے انہیں ثبوت پیش کرنے کو کہا ۔ حکام نے استفسار کیا کہ انہیں کس قانون کے تحت سندھ پبلک سروس کمیشن بائی پاس کر کے بھرتی کیا گیا۔کس ریکروٹمنٹ کمیٹی نے کس قانون و اتھارٹی کی اجازت سے ان کے انٹرویوز کئے۔ کس اخبار میں بھرتیوں کا اشتہار شائع ہوا ، کب اور کہاں سے ان کا میڈیکل ہوا ، جاری تعیناتی لیٹرز کا کہیں کوئی اندراج ہے توپیش کیا جائے تو وہ ان کا موقف درست مان لیں گے۔محکمہ بلدیات کی جانب سے برطرف افسر لینے سے انکار پر چیف سیکریٹری کے حکم پر محکمہ سروسز نے معاملہ تحقیقات کیلئے چیئرمین اینٹی کرپشن کو بھیجنے کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا جس کے تحت معاملے کی تحقیقات اچھی شہرت کے حامل افسر سے کرانے کی ہدایت کی گئی ہے۔ چیئرمین اینٹی کرپشن کو بھرتیاں غیر قانونی ثابت ہونے پر تادیبی کارروائی کیلئے سفارشات پیش کرنے کیلئے بھی کہا گیا ہے۔ 10اکتوبر 2016کو سندھ ہائی کورٹ ان افسران کی برطرفی درست قرار دے چکی ہے تاہم 6دسمبر 2017کو سپریم کورٹ نے فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے برطرفی کیخلاف دائر رٹ کو سروسز پٹیشن میں بدلتے ہوئے چیف سیکریٹری کو ذاتی سماعت کے بعد کیس نمٹانے کا حکم دیا تھا ۔’’امت‘‘ کے رابطے پر سیکریٹری محکمہ بلدیات کا کہنا ہے کہ معاملے کی تحقیقات کے حکم کے باعث وہ کسی قسم کی کوئی رائے نہیں دیں گے ۔اپنا موقف عدالت و چیف سیکریٹری کو دے چکا ہوں ۔اچھی طرح معلوم کرلیا ہے کہ برطرف افسران کا کہیں بھی کوئی ریکارڈ نہیں ہے۔