اپوزیشن میں پھوٹ-انتخابی دھاندلی کے خلاف احتجاج سے پی پی لاتعلق رہی

اسلام آباد(نمائندہ امت / ایجنسیاں) تحریک انصاف کے خلاف اپوزیشن کے مشترکہ اتحاد میں وزارت عظمی کے انتخاب سے قبل ہی پھوٹ پڑ گئی۔ بدھ کے روز اسپیکر و ڈپٹی اسپیکر کے انتخاب کے موقع پر عام انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے خلاف احتجاج کے دوران پی پی ارکان لاتعلق رہے۔ پارٹی چئیرمین بلاول بھٹو زرداری نے شہباز شریف کو وزیر اعظم کا امیدوار ماننے سے بھی انکار کردیا اور مطالبہ کیا ہے کسی اور کو امیدوار لایاجائے تو ہم اسے ووٹ دیں گے۔ ذرائع کے مطابق ن لیگ نے وزیراعظم کا امیدوار بدلنے کا مطالبہ مستر د کردیا تاہم خواجہ آصف کو مشترکہ قائد حزب اختلاف نامزد کرنے کی تجویز پر غور کیا جارہا ہے۔ذرائع کا یہ بھی دعوی ہے کہ اڈیالہ جیل میں نوازشریف نے شہبازشریف کو ہدایت کی تھی کہ وہ قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر کے فرائض پارٹی کے سینئر رہنما خواجہ آصف یا کسی اور کو دیں اور خود پارٹی امور پر نظر رکھیں۔ دوسری جانب نوازلیگی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی نے یہ ڈرامہ چئیرمین سینیٹ بدلنے کیلئے رچایا ہے۔ وہ منی لانڈرنگ کیس سے بھی بچنا چاہتی ہے اس لئے وزارت عظمی کیلئے ہمارے امیدوار کے بجائے عمران خان کو ووٹ دے گی۔ سابق وزیر قانون پنجاب رانا ثنا اللہ خان کا کہنا تھا کہ پی پی قیادت پر شدید دباؤ ہے اور وہ اس سے باہر نکلنے کی سکت نہیں رکھتی۔ اربوں ڈالر کی منی لانڈرنگ کا کیس ہے جس سے وہ بچنا چاہتے ہیں لیکن پی پی والے یاد رکھیں آصف زرداری پھر بھی نہیں بچیں گے۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ نوازشریف اور شہباز شریف متحد ہیں ، ان کے درمیان سے ہوا بھی نہیں گذر سکتی،پارلیمنٹ میں بھرپور اپوزیشن کا کردار ادا کریں گے، ہمیں کسی سے اتحاد کی ضرورت نہیں، دھاندلی سے کروڑوں عوام پر مسلط کی جانے والی حکومت کو آسانی سے نہیں چلنے دیں گے۔پنجاب اسمبلی میں بھی ہماری کمزور اپوزیشن نہیں، جعلی مینڈیٹ والوں کو دن میں تارے دکھا دیں گے۔ خلائی مخلوق اور ان کے حواریوں کو کسی صورت میں کھل کر نہیں کھیلنے دیں گے، 20 کروڑ عوام جان چکے ہیں کہ ووٹ کسی اور کو ڈالے جاتے ہیں اور بعد میں کسی اور کے نکلتے ہیں۔انشا اللہ نواز شریف عدالتوں سے باعزت بری ہوں گے ملک میں بھر پور طریقے سے سیاست کریں گے۔سینیٹر مشاہد اللہ کااس حوالے سے کہنا تھا کہ پیپلزپارٹی وزارت عظمیٰ کا امیدوار تبدیل کرنے کا مطالبہ کیوں کر رہی ہے، ن لیگ کے فیصلے بلاول کریں گے توپیپلزپارٹی کے فیصلوں کا اختیار شہباز شریف کو دے دیں۔ اس طرح کی ڈکٹیشن تو مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بھی نہیں دیتے تھے۔انہوں نے مزید کہا کہ پیپلز پارٹی دراصل اس بہانے اپنا چئیرمین سینیٹ لانا چاہتی ہے،اگر ایسا ہے تو ایوان بالا میں اپوزیشن لیڈر بھی بدلنا چاہئے۔ یہ عہدہ اکثریتی جماعت کا ہوتا ہے اور اکثریت ہمارے پاس ہے۔ قبل ازیں قومی اسمبلی کے اجلاس میں سبکدوش اسپیکر ایاز صادق نے اسپیکرکے الیکشن کے نتائج کا ا علا ن کرتے ہی سا بق ڈپٹی اسپیکر کا مائیک کھولنے کا حکم دے دیا ۔ مرتضیٰ جاوید عباسی نے نکتہ اعتراض پر تقریر کرتے ہو ئے تحریک انصاف کے بنچوں کی طرف اشا رہ کرتے ہو ئے کہا کہ یہ انتخابات میں دھاندلی کے نتیجے میں یہاں جعلی مینڈیٹ لے کر آئے ہیں ہم ان کے مینڈیٹ کو نہیں ما نتے ہمارے قائد نواز شریف کو بے گناہ جیل میں ڈالا گیا ہے۔ اس موقع پر حکومتی بنچوں کی طرف سے آنے والے جملوں نے ایوان کا ماحول مزید گرم کردیا۔ اسی دوران اسپیکر ایاز صادق نو منتخب اسپیکر اسد قیصر سے حلف لینے کے لیے کھڑے ہو ئے تو اپوزیشن نے شدید نعرے بازی شروع کر دی اور شہباز شریف کی قیادت میں ووٹ کو عزت دو کے نعرے لگاتے ہوئے اسپیکر ڈائس کے گرد گھیرا بناکر کھڑے ہوگئے۔ نو منتخب اسپیکر نے شور شرابے کے دوران ہی اپنے عہدے کا حلف اٹھایا۔ بعد ازاں اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے انہوں نے ہاؤس کو ان آرڈر لانے کی کوشش کی تاہم جب دیکھا کہ مسلم لیگ ن کا احتجاج زیادہ زور دار ہے تو اجلاس 15 منٹ کے لیے ملتوی کر دیا ا س دوران مسلم لیگ ن کے ارکان نواز شریف کے پوسٹر ہاتھ میں پکڑے نعرے لگاتے ہوئے قا ئد ایوان یعنی وزیراعظم کی نشست کے سا منے بھی آ کر کھڑے ہو گئے ۔ جس کے ساتھ والی نشست پر وزارت عظمی کے امیدوار عمران خان بیٹھے تھے۔ پی ٹی آئی کے اراکین فرخ حبیب ، علی ا مین گنڈا پو ر فوراً لپکے اور عمران کے سا منے کھڑے ہو گئے تاکہ کوئی ان سے بدتمیزی نہ کردے اس دوران پی ٹی آئی کے رکن عامر لیاقت حسین اپوزیشن ارکان کے پاس جاکر انہیں سمجھانے بجھانے کی کوشش کرتے رہے اس تمام احتجاج کے دوران پیپلز پارٹی خامو ش تماشائی بنی تماشہ دیکھتی رہی۔

Comments (0)
Add Comment