نئے پاکستان کا نیا اسپیکر منتخب-پہلے معرکے میں اپوزیشن مات کھاگئی

اسلام آباد (رپورٹ :محمد فیضان) نئے پاکستان میں تحریک انصاف کیخلاف پہلے ہی معرکے میں اپوزیشن مات کھاگئی۔اسد قیصر 176 ووٹ لیکر نئے اسپیکر منتخب ہوگئے، جبکہ ڈپٹی اسپیکر کے انتخاب میں پی ٹی آئی کے قاسم خان سوری کو 183ووٹ ملنے پر مسلم لیگ ن میں فارورڈ گروپ تشکیل پانے کی بازگشت بھی تیز ہوگئی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ کم ازکم 3 نواز لیگی ارکان قیادت سے ہاتھ کرگئے ہیں۔ ادھر تحریک انصاف کے سنیئر وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی نے ‘‘امت’’ سے گفتگو میں کہا ہے کہ ہمارے طے شدہ ووٹ 176ہی تھے۔ ڈپٹی اسپیکر کے انتخاب میں جن اپوزیشن کے ارکان نے ہمارے ارکان پر اعتماد کیا ہم ان کے شکر گزار ہیں۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ اسپیکر کے انتخاب میں اگر ووٹ مسترد نہ ہوتے تو اسد قیصر کو بھی 183ووٹ ہی ملتے۔ شاہ محمود قریشی کے اس بیان نے سابق حکمران جماعت کے لئے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے اور اس نے اس بات کی تحقیقات شروع کردی ہیں کہ باغی ارکان کون سے ہیں۔اسپیکر کے انتخاب میں مسترد ہونے وا لے ووٹوں کے بارے میں مسلم لیگ (ن) کے ذرائع نے دعویٰ کیا ہے کہ 2 ووٹ خورشید شاہ کے مسترد ہوئے اور 6ووٹ تحریک انصاف کے رہنما اسد قیصر کے مسترد ہوئے۔ مسلم لیگ (ن) نے اپنے دعوے میں یہ بھی کہا ہے کہ خورشید شاہ کے مسترد ہونے والے 2ووٹوں میں سے ایک ووٹ مسلم لیگ کے رکن اسمبلی کا تھا، جس نے دونوں خانوں میں مہر لگا دی تھی۔ دوسری جانب پیپلز پارٹی کا مؤقف تھوڑا مختلف ہے، جن کا کہنا ہے کہ مسترد ہونے والے 6 ووٹوں پر مہر کچھ اس طرح درمیان میں لگائی گئی تھی کہ واضح نہیں ہو رہا تھا کہ یہ ووٹ کس امیدوار کو دیا گیا ہے۔ اسپیکر کے انتخاب کیلئے پولنگ کے عمل کے دوران پاکستان پیپلز پارٹی کی جانب سے بطور پولنگ ایجنٹ فرائض انجام دینے والے غلام مصطفی شاہ نے کہا کہ خورشید شاہ کو ملنے والے جو 2 ووٹ مسترد ہوئے ان پر پین سے نشان بھی لگایا گیا تھا، جبکہ باقی 6 ووٹوں پر مہر کچھ اس طرح درمیان میں لگائی گئی تھی کہ واضح نہیں ہو رہا تھا کہ یہ ووٹ خورشید شاہ کو دیئے گئے ہیں یا پھر اسد قیصر کے حق میں ڈالے گئے ہیں۔ غلام مصطفی شاہ نے شبہ ظاہر کیا ہے کہ یہ ووٹ بھی شاید خورشید شاہ کے تھے جو درمیان میں مہر لگنے کی وجہ سے مسترد ہوگئے، تاہم ڈپٹی اسپیکر کے انتخاب نے مسترد ووٹوں کی حقیقت بھی کھول دی ہے۔ اسپیکر کے انتخاب میں اپوزیشن کے امیدوار کو 146ووٹ ملے، جبکہ ڈپٹی اسپیکر کے انتخاب میں ان کے امیدوار کو 144 ووٹ ملے، جس کا مطلب صاف ہے کہ اپوزیشن کے اندر سے 2ارکان نے پی ٹی آئی کے امیدوار کو ووٹ ڈالے، جبکہ توقع کی جا رہی تھی کہ اپوزیشن کے امیدوار 149 سے زائد ووٹ لیں گے، تاہم ڈپٹی اسپیکر کے انتخاب کے بعد معلوم ہوا کہ پی ٹی آئی کو 7اضافی ووٹ مسلم لیگ ن کے کھاتے میں سے ڈالے گئے ہیں، جس کے بارے مسلم لیگ ن اب تشویش میں مبتلا ہوگئی ہے اور اس کی چھان بین شروع کردی ہے۔ مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف نے سنیئر رہنماؤں کو ہدایت کی ہے کہ وہ اس معاملے کی تہہ تک پہنچیں، جبکہ مسلم لیگ ن میں فارورڈ گروپ سے متعلق پرویز الٰہی اور شیخ رشید کے دعوؤں کی تصدیق ہوتی نظر آرہی ہے۔ قبل ازیں تحریک انصاف کے اسد قیصر 176 اور قاسم خان سوری183 ووٹ لیکر15ویں قومی اسمبلی کے 22ویں اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر منتخب ہوگئے۔ دونوں نے اپنے عہدوں کا حلف اٹھا لیا ہے۔ نومنتخب اسپیکر سے سابق اسپیکر ایاز صادق، جبکہ ڈپٹی اسپیکر سے نومنتخب اسپیکر نے حلف لیا۔ پیپلز پارٹی کے امیدوار سید خورشید شاہ نے اسپیکر کے عہدے کے لیے 146، جبکہ مولانا فضل الرحمن کے صاحبزادے اسعد محمود نے ڈپٹی اسپیکر کے لیے 144ووٹ لیے، اسپیکر کے انتخاب میں مجموعی طور پر 330ووٹ ڈالے گئے، جس میں سے 8 ووٹ مسترد ہوئے، جبکہ ڈپٹی اسپیکر کے انتخاب میں 328ووٹ ڈالے گئے، جس میں سے ایک مسترد ہوا۔ پی ٹی آئی کے رکن نجیب احمد اویسی ڈپٹی اسپیکر کے انتخاب میں غیر حاضر تھے۔ انہیں وہیل چیئر پر لایا گیا تھا۔ اسپیکر کو ووٹ دے کر چلے گئے۔ اسد قیصر نے اسپیکر کی نشست سنبھالنے کے بعد ایوان سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میں تمام پارلیمانی جماعتوں کو ساتھ لے کر چلوں گا۔ میرے لیے سب برابر ہیں، ماضی کی غلطیوں کو نہیں دہرایا جائے گا۔ اسپیکر اسد قیصر نے کہا ہے کہ قومی اسمبلی کے عملے کو ہدایت کرتا ہوں کہ دیانتداری سے فرائض انجام دیں۔ پریس گیلری کے بغیر ایوان نامکمل ہے، ہم سب کی پہچان اور شناخت پاکستان ہے۔ قاسم سوری نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کا اعتماد کرنے پر شکر گزار ہوں، اسعد محمود نے جمہوری انداز میں مقابلہ کیا ان کا شکریہ ادا کرتا ہوں، جبکہ ووٹ دینے والوں کا بھی شکر گزار ہوں، انہوں نے مزید کہا کہ میرا تعلق بلوچستان سے ہے، جہاں الیکشن کے دن بے گناہ لوگ شہید ہوئے، لیکن دہشت گردی کے باوجود بلوچستان کی عوام نے ووٹ کاسٹ کیا۔ بلوچستان نے گیس دی، لیکن افسوس اسے صرف کالونی کی طرح ڈیل کیا گیا اور نفرتیں پھیلائی گئیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم اپنے صوبے کو حقوق دلوائیں گے، امن لائیں گے، اپنے ناراض بھائیوں کو قومی دھارے میں لائیں گے۔ سابق اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ 2013میں پاکستان کی پہلی جمہوری حکومت نے دوسری حکومت کو اقتدار منتقل کیا۔ انہوں نے کہا کہ نواز شریف کا شکریہ ادا کرتا ہوں، جنہوں نے مجھے اسپیکر منتخب کیا، آصف زرداری کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے مجھے اسپیکر شپ کے ووٹ دیئے۔ایاز صادق نے کہا کہ جعلی اسپیکر کی آوازیں سنیں، میرا نام لیکر کہا گیا کہ نہیں مانتے، جب یہ کہا گیا کہ پارلیمنٹ میں چور بیٹھے ہیں تو ہر رکن پارلیمنٹ کا دل دکھا، میں یہ چاہوں گا کہ سیاسی اختلاف ایک طرف لیکن ایک دوسرے کی عزت کریں۔ ناکام امیدوار خورشید شاہ نے نومنتخب اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کو مبارکباد دی اور کہا کہ اپوزیشن پارلیمنٹ کا تقدس بحال رکھنے کی کوشش کرے گی۔ مجھے فخر ہے کہ میری پارٹی اور قائدین نے پارلیمنٹ کو قائم رکھنے کیلئے اپنی زندگیاں دے دیں، بینظیر بھٹو کی شہادت کی وجہ سے ملک میں جمہوریت نظر آتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ماضی میں بھی کوشش کی گئی کہ پارلیمنٹ اپنی مدت پوری نہ کرسکے۔ میری دعا ہے کہ نئی حکومت عوام سے کیے گئے وعدے پورے کرے۔خورشید شاہ کا خطاب ختم ہوا تو رہنما پی ٹی آئی شاہ محمود قریشی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ خورشید شاہ نے فراخ دلی سے نتیجہ قبول کیا۔ پارلیمنٹ کو تسلیم کرنا جمہوریت کے تسلسل کیلئے ضروری ہے۔ ایاز صادق نے 5سال احسن طریقے سے اسمبلی کی کارروائی چلائی۔ ایوان کے تقدس کو پروان چڑھانے کیلئے ان رویوں کو اپنانا ہوگا۔ اسپیکر کے عہدے کے لیے انتخابی عمل سابق اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کی زیر نگرانی مکمل ہوا، ووٹنگ کا عمل شروع ہوا تو اردو حروف تہجی کے حساب سے سب سے پہلے سابق صدر آصف علی زرداری کا نام پکارا گیا، لیکن وہ ایوان میں موجو د نہیں تھے وہ 12 بجے کے قریب ایوان میں آئے اور اپنا ووٹ کاسٹ کیا۔ اراکین کی آمد میں تاخیر کے سبب 10 بج کر 40 منٹ پر ووٹنگ کا عمل شروع ہوا۔ اجلاس کے آغاز میں کچھ نومنتخب اراکین اسمبلی نے حلف اٹھایا جو الیکشن کمیشن اور عدالتوں میں زیر التوا کیسز کے سبب 13 اگست کو حلف نہیں اٹھا سکے تھے۔ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اور پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اپنے اپنے اراکین قومی اسمبلی کے ساتھ اجلاس میں شریک ہوئے، جبکہ مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف اپنے بھائی نواز شریف کی احتساب عدالت میں پیشی کے باعث تاخیر سے اجلاس میں شریک ہوئے۔اجلاس سے قبل تحریک انصاف کے رہنما شاہ محمود قریشی، اسد قیصر کو اسپیکر کے عہدے پر کامیاب کروانے کے لیے لابنگ میں مصروف رہے اور انہوں نے مختلف ارکان کی نشستوں پر جا کر ووٹ کی درخواست کی جبکہ عمران خان نے صاحبزادہ محبوب سلطان کی نشست پر جا کر ان کی مرحوم والدہ کے لیے فاتحہ خوانی کی۔

Comments (0)
Add Comment