کراچی(رپورٹ/عظمت علی رحمانی)محکمہ ایجوکیشن سندھ نے 6 ڈائریکٹوریٹ کے 300سو کالجز کو لاوارث بنا دیا، 13ماہ قبل ڈی جی کالجز کے ریٹائر ہونے کے بعد تاحال کوئی ڈی جی تعینات نہیں کیا جاسکا ہے گزشتہ ہفتے گریڈ 18 کے جونیئر افسر کو گریڈ 20 کے ڈی جی کا قائم مقام چارج دیا گیا ڈی جی کی عدم تعیناتی سے سیکرٹریٹ افسران اختیارات اپنے پاس ہی رکھنا چاہتے ہیں ۔ 12برس میں 3ڈی جی تعینات کرکے اختیارات نہیں دیئے گئے ۔’’امت‘‘ کو حاصل معلومات کے مطابق محکمہ ایجوکیشن سندھ کے سیکرٹریز کی جانب سے سندھ بھر کے کالجز میں ٹرانسفر اور پوسٹنگ سمیت دیگر اہم امور کا اختیارات اپنے پاس رکھنے کیلئے ڈائریکٹوریٹ جنرل کو شروع سے ہی بے اختیار رکھا گیا ہے ۔حکومت سندھ نے 2006 میں سندھ بھر میں کالجز کی تعداد میں اضافے کے باعث 6 ریجنز پر ایک ڈائریکٹوریٹ جنرل قائم کردیا تھا جب کہ اس سے قبل کراچی ۔حیدر آباد ۔سکھر ۔میرپور ۔لاڑکانہ اور نواب شاہ میں گریڈ 20کے ڈائریکٹر کالجز ہی ریجن کے تحت آنے والے کالجوں کے معاملات کو نمٹاتے اور گریڈ 17تک کے افسران کی ٹرانسفر ، پوسٹنگ کرسکتے تھے۔ڈائریکٹوریٹ کالجز کے قیام کے بعد وہاں گریڈ 20کے ہی سینئر ترین افسران کی تعیناتی کی گئی تاہم ان سے اساتذہ کی ٹرانسفر پوسٹنگ کے اختیارات سلب کر لیئے گئے اور ڈی جی کالجز کا کل دائرہ اختیار ریجن اور کالجز کی تمام فائلوں کو سیکرٹریز تک پہنچانا ہوتا تھا ۔ ڈی جی کی تعیناتی اسی خاموش شرط پر ہوتی ہے کہ وہ سیکرٹریز سے ہی امور کی انجام دہی کرائے گا ۔معلوم رہے کہ گزشتہ 12برس سے 4کے بجائے صرف 3ڈی جیز تعینات کیئے گئے جن میں محمد علی شیخ رفیق صدیقی اور ناصر انصار شامل ہیں ‛ان میں ڈاکٹر ناصر انصار 4جولائی 2017کو ریٹائر ہوئے جس کے بعد 13ماہ گزر چکے ہیں تاہم ڈائریکٹر کالجز تعینات نہیں کیا جاسکا ہے ۔ گزشتہ ہفتے محکمہ ایجوکیشن کالجز نے ایک حکمنامے کے ذریعے محکمے کے گریڈ 18کے جونیئر افسر محمد حسین قادری کو قائم مقام ڈائریکٹر جنرل کالجز کے اختیارات دیئے تھے ۔ واضح رہے کہ محمد حسین قادری کالج سائیڈ کی سروس کا تجربہ نہیں رکھتے ۔یاد رہے کہ محکمہ ایجوکیشن کالجز کے سندھ بھر میں درجنوں گریڈ 20کے سینئر افسران موجود ہیں جن میں سے بعض افسران 2012سے 20گریڈ میں ہیں اس کے باوجود سیکرٹریٹ کے بعض افسران من پسند جونیئر اور متنازع شہرت کے حامل افسر شفیق رند کو ڈی جی کالجز تعینات کرانا چاہتے ہیں ۔امت کو حاصل دستاویزی ثبوت کے مطابق شفیق رند اس وقت نواب شاہ میں ریجنل ڈائریکٹر تعینات ہیں جن پر نواب شاہ کے اساتذہ اور ڈائریکٹوریٹ کے تمام افسران و عملے نے الزامات عائد کیئے ہیں کہ وہ ہر چھوٹی بڑی فائل پر 500روپے تک کی رشوت بھی لیتے ہیں جب کے مذکورہ افسر کی تعلیمی قابلیت کا عالم یہ ہے کہ وہ نوٹ شیٹ بنانے کی اہلیت بھی نہیں رکھتے ہیں ۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ شفیق رند کو اس سے قبل لاڑکانہ ریجن میں ڈائریکٹر بنا کر بھیجا گیا تھا جہاں کے افسران نے ان پر اعتراضات کیئے تھے ۔ سندھ پروفیسرز اینڈ لیکچرر ایسوسی ایشن کے افسران کا کہنا ہے کہ حکومت سندھ محکمہ تعلیم کے افسران ڈائریکٹوریٹ جنرل کالجز کو ختم کرنا چاہتے ہیں تاکہ براہ راست سیکرٹریٹ ہی تمام ریجن کے امور انجام دے جس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ ایک طرف من پسند جونیئر افسر کو 13ماہ بعد تعینات کرنے کی تیاری ہے تو دوسری جانب ڈی جی آفس میں خدمات انجام دینے والے دو اچھی شہرت کے افسران ڈائریکٹر انسپکشن مراد علی راحموں اور ڈائریکٹر ایچ آر ایم دلشاد مرزا کو بھی عہدے سے ہٹا دیا گیا ہے اس حوالے سے سندھ پروفیسرز اینڈ لیکچرر ایسوسی ایشن کے مرکزی صدر فیروز الدین صدیقی کا کہنا ہے کہ ڈی جی کالجز کا جلد از جلد تقرر کیا جائے تاہم ایسا افسر نہ ہو جو جونیئر ۔نیب زدہ ۔اینٹی کرپشن کے کیسز میں نامزد اور ڈیپارٹمنٹ کی انکوائری کی زد میں بھی نہ ہو اور بلکہ سینئر اور قابل افسر کو تعینات کیا جائے ۔ڈی جی کی تعیناتی کے لیئے سیکرٹری ایجوکیشن لبنیٰ صلاح الدین سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے بتایا کہ انہوں نے سمری چیف سیکرٹری کو ارسال کی گئی ہے جس میں گریڈ 20کے افسران کے نام شامل کیئے گئے ہیں ۔