پنجاب میں لیگی فارورڈ بلاک کی گھنٹی بج گئی

لاہور/اسلام آباد(نمائندگان امت/ ایجنسیاں) مسلم لیگ ن کے مرکز پنجاب میں فارورڈ بلاک کی گھنٹی بج گئی۔ اسپیکر کے انتخاب میں پرویز الہی کی 201 ووٹوں سے کامیابی حمزہ شہباز کیلئے بڑا دھچکا ثابت ہوئی جو اپنے پہلے ہی امتحان میں فیل ہوگئے۔تحریک انصاف کے اہم اتحادی رہنما کم ازکم 13 ن لیگی ارکان توڑنے میں کامیاب رہے۔ 162 کی عددی اکثریت رکھنے والی سابق حکمران جماعت کے امیدوارچوہدری اقبال گجر صرف 149 ووٹ حاصل کرسکے۔اس طرح نواز لیگ کا قلعہ سمجھے جانے والے پنجاب میں نواز لیگ مسلسل 10 برس تک حکومت کرنے کے بعد حزبِ اختلاف کی جماعت بن گئی ۔ نتیجہ سنتے ہی سیاہ پٹیاں باندھے ن لیگی ارکان نے ہنگامہ کردیا۔ پرویزالہی نے شور شرابے کے دوران ہی حلف اٹھایا۔ پی ٹی آئی اور ق لیگ کے ارکان نے بھی جوابی نعرے بازی کی جس پر نومنتخب اسپیکرنے اپنے ارکان اور اتحادیوں کو روکتے ہوئے طنزیہ انداز میں کہا کہ ن لیگ والوں کو زیادہ زخم لگے ہیں۔انہیں بولنے دو۔ اگرچہ ڈپٹی اسپیکر کے انتخاب میں ن لیگ کے 12ا رکان واپس لوٹ آئے جس نے ن لیگی رہنماؤں کی پریشانی کچھ کم کردی تاہم سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ سابق حکمران جماعت کے لیے اسپیکر شپ کے انتخاب میں شکست سے زیادہ اپنی صفوں میں دراڑیں پڑنا لمحہ فکریہ ہے۔مسلم لیگ (ن) کے ناراض ارکان کی تعداد مزید بڑھنے کے خدشے کا اظہار کیا جارہا ہے جن کا سراغ لگانے کی ذمہ داری پارٹی قیادت نے حمزہ کوسونپی ہے لیکن ایسا کرنا بظاہر دشوار نظر آتا ہے کیونکہ رائے شماری خفیہ ہوئی ہے ۔کارروائی کے دوران 3 بار ہنگامہ آرائی کے واقعات پیش آئے، تحریک انصاف اور ق لیگ کے رہنماؤں نے کامیابی پر جشن منایااور مٹھائیاں تقسیم کیں۔اطلاعات کے مطابق جمعرات کے روز پنجاب اسمبلی کا اجلاس اسپیکر رانا محمد اقبال کی سربراہی میں ہوا جس میں خفیہ ووٹنگ کے ذریعے اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کا انتخاب کیا گیا، پی پی ارکان نے خفیہ رائے شماری میں حصہ نہیں لیا، ووٹ دکھانے پر تحریک انصاف کی ایک خاتون صادقہ صاحب داد خان کا ووٹ کینسل کیا گیا۔ جس پر ن لیگ کے ارکان نے ووٹ کو عزت دو کے نعرے لگائے، پولنگ مکمل ہونے پر اسپیکر نے اعلان کیا کہ اگر کوئی ممبر رہ گیا ہے تو ووٹ کاسٹ کر لے۔رائے شماری میں کل 349 ارکان نے حصہ لیا ، پرویز الہیٰ نے 201 اور چوہدری اقبال نے 147 ووٹ حاصل کئے جب کہ ایک ووٹ مسترد ہوا۔ پرویز الہی کی کامیابی کا اعلان ہوتے ہی ایوان میں ایک مرتبہ پھر ہنگامہ آرائی شروع ہوئی، مسلم لیگ ن کے ارکان نے اسپیکر ڈائس کے سامنے نعرے بازی کی جس کے جواب میں تحریک انصاف کے ارکان بھی نعرے لگاتے رہے، ہنگامہ آرائی اور نعرے بازی ہی میں چوہدری پرویز الہٰی نے حلف اٹھایا۔چوہدری پرویز الٰہی نے کامیابی کے بعد اپنے خطاب میں کہا کہ عمران خان کا مشکور ہوں، ایوان کو اچھےطریقے سے چلاؤں گا، یہ شور مچانے کا نہیں بلکہ کارکردگی دکھانے کا وقت ہے۔ ن لیگی ارکان کے احتجاج پرطنز کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ انہیں بولنے دیں ان کوزخم زیادہ لگے ہیں۔نومنتخب اسپیکر کا مزید کہنا تھا کہ اعتماد کا اظہار کرنے والے ارکان کا شکریہ ادا کرتا ہوں، عوام کا تقدس پامال کرنے والوں کو روکنا ہوگا، ہماری نیک نیتی عوام دیکھے گی۔ بعد ازاں ڈپٹی اسپیکر کیلئے انتخاب ہوا جس میں تحریک انصاف کےدوست محمد مزاری187ووٹ حاصل کرکے ڈپٹی اسپیکر منتخب ہوگئے۔مسلم لیگ(ن) کےوارث کلوکو159 ووٹ ملے۔ ڈپٹی اسپیکرکے انتخاب کیلئے کل 348ووٹ کاسٹ ہوئے،جس میں 2مسترد ہوگئے۔یاد رہے کہ پنجاب اسمبلی میں تحریک انصاف اور ق لیگ کے مشترکہ اراکین کی تعداد 185ہے ۔ 3 آزاد ارکان ملا کر دونوں جماعتوں کے ووٹوں کی مجموعی تعداد 188 بنتی ہے ۔ تاہم چوہدری پرویز الہی نے 13 ووٹ زیادہ حاصل کیے۔پرچی دکھا کر ووٹ کاسٹ کرنے پر اسپیکر نے تحریک انصاف کی خاتون رکن شمسہ علی کا ووٹ منسوخ کیا گیا۔ اسپیکر رانا اقبال کا کہنا تھا کہ ووٹ دکھانا امانت میں خیانت ہے اس لیے ووٹ کینسل کرنے کا حکم دیا ہے۔خاتون رکن کا ووٹ منسوخ ہونے پر پی ٹی آئی کے ارکان نے اسپیکر ڈیسک کا گھیراوٴ کیا اور مسلم لیگ (ن) کی رکن پر ووٹ دیکھنے کا الزام لگاتے ہوئے اسپیکر کو بھی جانبدار قرار دیا۔ پیپلز پارٹی کے اراکین نے اسپیکر اسمبلی کے انتخاب کے عمل کے دوران کسی بھی امیدوار کو ووٹ نہ دیا اور اسمبلی میں شور شرابے اور احتجاج کے دوران بھی خاموش رہے۔سیکرٹری پنجاب اسمبلی کی جانب سے اعلان کیا گیا ہے کہ صوبے کے وزیراعلیٰ کا انتخاب 19 اگست کو ہوگا۔یاد رہے کہ پنجاب اسمبلی کا ایوان 371 ارکان پر مشتمل ہے تاہم عام انتخابات 2018ء میں 360 ارکان منتخب ہو کر ایوان میں پہنچے اور 11 نشستیں تاحال خالی ہیں۔پنجاب اسمبلی میں 175 اراکین کا تعلق تحریک انصاف اور 162 کا مسلم لیگ (ن) سے ہے، مسلم لیگ (ق) کے ارکان 10 جبکہ پیپلز پارٹی کی 7 نشستیں ہیں۔گزشتہ روز 354 اراکین اسمبلی نے حلف اٹھایا اور 6 اراکین اسمبلی حلف اٹھانے کے لیے نہ پہنچ سکے،اسمبلی ریکارڈ کے مطابق 72 خواتین منتخب ہوکر ایوان میں آئی ہیں، جن میں 5 جنرل نشستوں پر، 66 مخصوص نشستوں پر جبکہ ایک کا انتخاب اقلیتی نشست پر ہوا ہے۔ چودھری نثار علی خان اور عظمیٰ زعیم قادری جمعرات کو بھی حلف اٹھانے پنجاب اسمبلی نہیں آئے۔تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ نواز لیگ کے امیدوار کو 15 ووٹ کم پڑنے سے یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ جماعت کے اندر فارورڈ بلاک بن گیا ہے۔ خیال رہے کہ عام انتخابات 2018ء میں ناکامی اور پارٹی قائد کے بیانیے کے خلاف مسلم لیگ ن کے اندر ہی ایک فارورڈ بلاک بننا شروع ہو گیا تھا۔ ن لیگی قیادت کو پیش کی جانے والی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ اگر پنجاب میں ن لیگ کی حکومت نہیں بنتی تو ان کے آدھے سے زیادہ ارکان اسمبلی پارٹی کو خیرباد کہہ دیں گے ۔اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ ایسے ارکان کے نام بھی پارٹی چھوڑ کرجانے والوں میں شامل ہوں گے جو بظاہر پارٹی کے ساتھ بہت کُھل کر چل رہے ہیں لیکن وہ اپوزیشن میں کسی صورت میں نہیں رہ سکتے ۔ دریں اثنا پنجاب اسمبلی میں ن لیگ کے پارلیمانی لیڈر حمزہ شہباز کی زیر صدارت اجلاس منعقد ہو اجس میں اسپیکر پنجاب اسمبلی کے انتخاب میں (ن) لیگ کو 15 ووٹ کم ملنے پر تشویش کا اظہار کیا گیا۔اجلاس میں وزارت اعلی کے الیکشن اور احتجاج کے حوالے سے لائحہ عمل طے کیا گیا اور پارٹی پالیسی کی خلاف ورزی کرنے والے ان 15 ارکان کو تلاش کرکے ان کے خلاف ایکشن لینے کا فیصلہ کیا گیا جنہوں نے اپنی پارٹی چھوڑ کر (ق) لیگ کے امیدوار چوہدری پرویز الہٰی کو ووٹ دیئے۔مسلم لیگ ن کی رہنما عظمیٰ بخاری نے پنجاب اسمبلی کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ شاید ہمارے نمک میں کمی رہ گئی تھی جس کے باعث ارکان نے غداری کی۔ چودھری پرویز الٰہی جعلی مینڈیٹ سے اسپیکر منتخب ہوئے ہیں۔ 200ووٹ لینے کے باوجود ایوان چلا نہیں پائیں گے۔ عظمی بخاری نے مزید کہا کہ اندازہ تھا کہ ہمارے ارکان کو توڑنے کی کوشش کی جارہی ہے، ہمیں توچند دنوں میں صبر آجائے گا لیکن تحریک انصاف کی اخلاقی شکست عوام کے سامنے عیاں ہوگئی ہے۔دوسری جانب تحریک انصاف کے مرکزی رہنما اور پنجاب اسمبلی کے رکن میاں محمود الرشید نے کہاکہ وزیر اعلی پنجا ب کے انتخاب کے بعد پنجاب کی 10سالہ سیاہ تاریخ کے خاتمے سے عوام کو غلامی سے آزادی ملے گی اورنئے جمہوری دور کا آغاز ہو رہاہے، شہبازشریف گھنٹہ گھر بنے رہے اور اب اپنے بیٹے کو اپوزیشن لیڈر کے طور پر لے آئے ہیں جبکہ یہ حق خواجہ سعد رفیق کا تھا۔انہوں نے مزید کہا کہ (ن) لیگ کے بہت سے دوستوں نے تعاون کی پیش کش کی ہے۔ ہم فاروڈ بلاک بنانے کی کوئی دانستہ کوشش نہیں کررہے۔

Comments (0)
Add Comment