کراچی(اسٹاف رپورٹر)سہراب گوٹھ مویشی منڈی میں منڈی ایڈمنسٹریٹر کی ہدایت کے بعد مفت دیئے جانےوالے پلاٹ بھی بھاری رقم کے عوض بیوپاریوں کو فروخت کئے جا رہے ہیں اور جو بیوپاری پیسے دینے سے انکار کرتا ہے اس کو منڈی کے دور دراز بنے بلاکوں میں مویشی اتارنے کا کہا جاتا ہے مال فروخت نہ ہونے کے ڈر سے بیوپاری ایڈمنسٹریٹر طاہر میمن عرف طاہر اے ٹی ایم کو منہ مانگی رقم دینے پر مجبور ہیں۔ ساتھ ساتھ مارشلنگ ایریا میں بھی کھلے عام کرپشن کی جارہی ہے اور ایک گاڑی کی سلپ پر2مویشیوں سے بھری گاڑیاں منڈی میں داخل کی جارہی ہیں۔یہ سارا کام رات کے اوقات میں کیا جا رہا ہے ۔مارشلنگ کے بنا پر منڈی میں داخل کی جانے والی گاڑی سے حاصل ہونے والی رقم طاہر میمن کو حاصل ہو رہی ہے، جس میں سے آگے تک حصہ پہنچایا جاتا ہے۔ذرائع کے مطابق ملیر کنٹونمنٹ بورڈ کے زیر اہتمام لگنے والی سہراب گوٹھ مویشی منڈی میں پچھلے برسوں کی نسبت اس سال بڑے پیمانے پر کرپشن کی جارہی ہے ، جس کی مکمل ذمہ داری منڈی کا ٹھیکہ لینے والے ایڈمنسٹریٹر طاہر میمن کی ہے ۔طاہر میمن اپنے مسلح کارندوں جو سیاہ رنگ کی ڈبل کیبن گاڑیوں میں ہوتے ہیں سے منڈی میں لوٹ مار کا بازار گرم رکھے ہوئے ہے۔سب سے زیادہ کرپشن مارشلنگ ایریے میں کی جارہی ہے، جہاں سے منڈی میں آنے والے مویشیوں سے بھری گاڑیاں سلپ بنوا کر منڈی میں داخل ہوتی ہیں۔طاہر میمن کی ایما پر اس کے کارندے مارشلنگ ایریا میں آئی گاڑیوں میں سے ایک گاڑی کی مارشلنگ سلپ بناتے ہیں، جبکہ دوسری گاڑی سے بنا سلپ بنائے رقم حاصل کی جاتی ہے ۔سلپ بنوا کر منڈی میں داخل ہونے والی گاڑی سے حاصل ہونے والی رقم ملیر کنٹومنٹ بورڈ جبکہ بنا سلپ والی گاڑی سے حاصل رقم ٹھیکیدار طاہر میمن کے کھاتے میں جا رہی ہے، جس میں سے اوپر تک حصہ پہنچایا جارہا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ منڈی کے اندر بنائے گئے پانچ وی آئی پی بلاکوں اور پٹیوں کے علاوہ تمام جگہ بیوپاریوں کو منڈی انتظامیہ مفت فراہم کرنے کی پابند ہوتی ہے اور جو پہلے منڈی میں آتا ہے اسے نزدیک کی جگہ الاٹ کی جاتی ہے ، مگر اس بار بیوپاریوں سے مارشلنگ ایریا میں طاہر میمن کے کارندے ڈیل کرتے ہیں اور اچھی و نزدیک جگہ کے 50سے 60ہزار روپے رشوت طلب کرتے ہیں، جو بیوپاری ان کو پیسے دیتے ہیں، انہیں مفت بلاکوں میں اچھی جگہ پر مویشی کھڑا کرنے کی اجازت دی جاتی ہے اور جو رقم نہیں دیتے انہیں دور دراز بنے بلاکوں میں جانور اتارنے پر مجبور کیا جاتا ہے، جہاں روشنی ، سیکورٹی و دیگر سہولتیں نہیں ہوتیں، جس پر بیوپاری مجبورا طاہر میمن کے کارندوں کی بات مانتے ہیں۔منڈی میں ایک بیوپاری نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ مجھے مارشلنگ ایریا سے 24نمبر بلاک الاٹ کیا گیا تھا، جو بہت دور ہے اور وہاں تک زیادہ شہری خریداری کرنے نہیں آتے ہیں، جس پر میں نے طاہر میمن کے کارندوں سے بات کی اور انہیں کہا کہ مجھے کوئی نزدیک کا بلاک دیا جائے تاکہ میں اپنا مال آسانی سے فروخت کرسکوں، تو انہوں نے مجھ سے 60ہزار روپے مانگے ، جو دینے پر وہ میری مویشیوں سے بھری گاڑی 14نمبر بلاک میں لے آئے اور مجھے ایک صاف ستھری جگہ پر مال اتارنے کی اجازت دی، جہاں پہلے سے ان کے دیگر ساتھی قبضہ کئے ہوئے تھے، جو پھر وہاں سے چلے گئے۔اب میں اس مقام پر اپنا مال فروخت کر رہا ہوں۔ساتھ ساتھ ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ منڈی میں فروخت ہونے والی پٹیاں بھی اس بار دگنی قیمت پر فروخت کی گئی ہیں، یعنی جن پٹیوں کے پلاٹ کی قیمت 40ہزار روپے مقرر کی گئی تھی۔وہ بیوپاریوں کو 80ہزار روپے میں فروخت کی گئی ہیں۔بیوپاریوں کو پٹی خریدتے وقت کہا گیا کہ پٹیاں ساری فروخت ہو چکی ہیں۔اگر آپ کو پٹی لینی ہے تو کچھ لوگ پٹی کے پلاٹ فروخت کرنے پر رتیار ہیں، جو اپنی پٹیوں کے 80ہزار روپے قیمت مانگ رہے ہیں اور مجبورا بیوپاریوں کو پٹی کے پلاٹ دگنی قیمت پر خریدنے پڑے ہیں۔منڈی میں آئے بیوپاریوں نے سپریم کورٹ سے اپیل کی ہے کہ اس معاملے کا فوری نوٹس لیا جائے اور مویشی منڈی میں ہونے والی کروڑوں روپے کی کرپشن ختم کی جائے۔اس خبر کے حوالے سے جب نمائندہ ’’امت‘‘ نے منڈی ایڈمنسٹریٹرطاہر میمن سے مؤقف لیا، تو ان کا کہنا تھا کہ اس قسم کے کچھ واقعات رپورٹ ضرور ہوئے تھے، مگر ہم نے چیکنگ میں اس چیز کو پکڑا ہے اور اس معاملے میں انتہائی سنجیدگی سے اپنی ذمہ داریاں سر انجام دے رہے ہیں کہ اس قسم کا کوئی مزید واقعہ ہمارے علم میں آیا تو ہم اس پر کارروائی کریں گے ۔