جام کمال بلوچستان کے وزیر اعلیٰ منتخب – لیگی ووٹ بھی مل گیا

کوئٹہ (نمائندہ خصوصی) بلوچستان عوامی پارٹی و اتحادی جماعتوں نے جام کمال عالیانی کو صوبے کا 16واں وزیر اعلیٰ چن لیا ہے۔ 6 جماعتی اتحاد کے جام کمال عالیانی کو ایوان میں موجود 59ارکان میں سے 39نے ووٹ دیا۔ جام کمال کو ووٹ دینے والوں میں واحد نواز لیگی رکن ثنااللہ زہری بھی شامل تھے، جنہوں نے اجلاس سے قبل حلف اٹھایا۔ وزیر اعلیٰ کیلئے متحدہ مجلس عمل کے امیدوار یونس عزیز زہری کو 20ووٹ ملے۔ وزیر اعلیٰ کے انتخاب کے بعد بلوچستان اسمبلی کے اراکین یونس عزیز زہری، پی ٹی آئی کے پارلیمانی لیڈر یار محمد رند، اے این پی کے پارلیمانی لیڈر اصغر اچکزئی اور دیگر نے نو منتخب وزیر اعلیٰ کو مبارکباد دیتے ہوئے امید ظاہر کی کہ وہ صوبے کے دیرینہ مسائل اتحادی جماعتوں و تمام اراکین کے تعاون سے حل کریں گے۔ اپوزیشن و حکومتی ارکان میں تفریق نہیں کی جائے گی۔ نو منتخب قائد ایوان جام کمال عالیانی نے بلوچستان عوامی پارٹی اور اپنی کامیابی کو نواب زادہ سراج رئیسانی اور سانحہ مستونگ کے شہدا کے لہو کا مقروض قرار دیتے ہوئے ارکان کو یقین دلایا کہ ایوان کو ساتھ لے کر بہتری کی کوشش کریں گے۔ احتساب و اہلیت کے بغیر کرپشن روکنا ممکن نہیں۔صوبے کے تمام مسائل 5برس میں حل کرنے کا دعویٰ نہیں کرتے، ترقی بڑی مشکل چیز ہے، ہم صوبے کو ترقی کی راہ پر بھی ڈال سکے تو یہ بھی بہت بڑی بات ہوگی۔ پہلی ترجیح گورننس بہتر بنانا ہے۔ پاکستانی ترقی بلوچستان سے وابستہ ہے اور یہ ممکن نہیں کہ بلوچستان نظر انداز کیا جائے۔ سی پیک کی ترقی گوادر سے وابستہ ہے اور یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ گوادر میں پینے کا پانی بھی نہ ہو۔ سی پیک سے استفادے کیلئے اقدامات اور اسلام آباد میں منی بلوچستان سیکریٹریٹ بنانے کا اعلان کیا۔ واضح رہے کہ نو منتخب وزیر اعلیٰ کے والد جام محمد یوسف بلوچستان کے واحد وزیر اعلیٰ تھے، جنہوں نے 5برس کی مدت مکمل کی۔ بلوچستان کے 4وزرائے اعلیٰ نیپ کے عطااللہ مینگل اور پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے 3وزرائے اعلیٰ جام غلام قادر خان، میر جان محمد جمالی اور اسلم رئیسانی کی حکومتیں گورنر راج کے ذریعے ختم کی گئیں۔ بلوچستان کو صوبے کا درجہ ملنے کے بعد عطا اللہ مینگل پہلے وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے، جو یکم مئی 1972 سے 13فروری1973تک وزیر اعلیٰ بنے۔ جام کمال کے دادا پیپلز پارٹی کے جام غلام قادر خان پہلی بار 27اپریل 1973سے 31دسمبر1974، پیپلز پارٹی کے محمد خان باروزئی7 دسمبر 1976 سے 5جولائی 1977تک وزیر اعلیٰ بلوچستان رہے۔ جام غلام قادر خان دوسری بار 6 اپریل 1985 سے 29مئی1988، اسلامی جمہوری اتحاد کے میر ظفر اللہ جمالی پہلی بار 24جون 1988سے 24دسمبر 1988 تک وزیر اعلیٰ بلوچستان رہے۔ بلوچستان نیشنل پارٹی کے نواب اکبر خان بگٹی 5 فروری 1989 سے 7اگست 1990، اسلامی جمہوری اتحاد کے تاج محمد جمالی17نومبر1990تا22مئی 1993، ذوالفقار مگسی پہلی بار 30 مئی 1993سے 19جولائی1993 اور دوسری مرتبہ 20 اکتوبر 1993 سے9 نومبر1996 تک وزیر اعلیٰ رہے۔ بلوچستان نیشنل پارٹی کے اختر مینگل 22فروری 1997 سے 29جولائی 1998، میر جان محمد جمالی 13اگست1998 سے 12اکتوبر1999 تک وزیر اعلیٰ بلوچستان رہے۔ قائد لیگ کے جام یوسف یکم دسمبر2002 سے لیکر 19نومبر2007، پی پی کے نواب اسلم رئیسانی 9اپریل 2008 سے 14جنوری 2013 تک وزیر اعلیٰ بلوچستان رہے۔ 2013 میں نیشنل پارٹی کے ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ7جون 2013 سے 23دسمبر 2015 اور نواز لیگ کے ثنا زہری 24دسمبر 2015سے9جنوری 2018 تک وزیر اعلیٰ رہے۔ 13جنوری کو میر عبدالقدوس بزنجو وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے اور وہ 7جون 2018 تک اسمبلی کی مدت پوری ہونے تک فائز رہے۔

کراچی (اسٹاف رپورٹر) مراد علی شاہ نے دوسری بار وزیر اعلیٰ سندھ کی حیثیت سے عہدے کا حلف اٹھا لیا ہے۔گورنر ہاؤس میں منعقدہ تقریب میں قائم مقام گورنر آغا سراج درانی نے ان سے حلف لیا۔ تقریب حلف برداری میں ایک ہزار مہمان مدعو تھے۔اس موقع پر ان کی تواضع 9 اقسام کے کھانوں سے کی گئی۔ تفصیلات کے مطابق ہفتہ کے روز نو منتخب وزیر اعلیٰ سندھ کی گورنر ہاؤس میں حلف برداری کی تقریب ہوئی، جس میں مہمانوں کے لئے 9ڈشز کا اہتمام کیا گیا تھا۔ ان ڈشوں میں چکن سینڈوچ، چکن ونگز، گرین ٹی، کافی اور چائے کا بھی اہتمام کیا گیا تھا۔

Comments (0)
Add Comment