اسلام آباد(نمائندہ خصوصی )سینئر قانون دانوں نے کہاہے کہ ماضی میں پارلیمنٹ کی عدم فعالیت کی وجہ سے اعلیٰ عدلیہ پر سیاسی معاملات سے متعلق اوربدعنوانی سمیت دیگرمقدمات کابوجھ بہت بڑھاہے نئی حکومت کواس حوالے سے کام کرناہوگااورسیاسی معاملات کوپارلیمنٹ کے ذریعے ہی حل کرناہوگا۔اعلی عدلیہ کی جانب سے متاثرین کوجلدسے جلدانصاف کی فراہمی کے لیے نئی پالیسی متعارف کرانی چاہیے ،مقدمات کی تعداد بہت زیادہ ہوجانابہت بڑامسئلہ ہے جس کوحل کرنے کی ضرورت ہے ۔ان خیالات کااظہار جسٹس (ر)فیاض ،جسٹس (ر)اکرم ،چوہدری شاہدایڈووکیٹ اور نزیراحمدایڈووکیٹ نے’’ امت‘‘ سے گفتگوکے دوران کیا ۔جسٹس (ر)فیاض نے کہاکہ ملک میں غربت ،بے روزگاری اور دیگر مسائل کی وجہ سے اعلیٰ عدالتوں پر مقدمات کابوجھ بڑھاہے تاہم اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ پارلیمنٹ نے اپنے معاملات خود حل نہ کرکے عدالتوں پر مقدمات کااضافہ کیا جس کے لیے اعلیٰ عدلیہ کوبہت زیادہ کام کرناپڑا اور مزیدکام جاری ہے سیاسی مقدمات ،بدعنوانی اور دیگر مقدمات کی شرح بھی بڑھ چکی ہے جس کوکم سے کم کرنے کے لیے ججزکی تعداد میں اضافہ کیاجاناچاہیے ۔ ،جسٹس (ر)اکرم نے کہاکہ نئی حکومت کوپارلیمانی معاملات کواس طرح سے چلاناہوگاکہ وہان کے مسائل اعلیٰ عدلیہ میں نہ آسکیں ۔سیاسی شخصیات کاایک دوسرے کونیچادکھانے کے لیے عدالتوں کارخ کرنابھی کوئی مثبت عمل نہیں اس کی بھی حوصلہ شکنی ہونی چاہیے ۔حکومت کوکئی اہم معاملات میں قانون سازی بھی کرناہوگی تاکہ عدالتوں کی استعدادکارمیں اضافہ کیاجاسکے ۔چوہدری شاہدایڈووکیٹ نے کہاکہ ماضی میں پارلیمنٹ کی عدم فعالیت کی وجہ سے اعلیٰ عدلیہ پر سیاسی ،بدعنوانی سمیت دیگرمقدمات کابوجھ بہت بڑھاہے نئی حکومت کواس حوالے سے کام کرناہوگااور اپنے سیاسی معاملات کوپارلیمنٹ کے ذریعے ہی حل کرناہوگا،وکلاء برادری بھی کم سے کم التوا لے کرمقدمات کے جلدفیصلوں کے لیے اپنا کرداراداکرسکتی ہے اور انھیں یہ کردار اداکرناچاہیے ۔ نذیراحمدایڈووکیٹ نے کہاکہ اعلیٰ عدلیہ کی جانب سے متاثرین کوجلدسے جلدانصاف کی فراہمی کے لیے نئی عدالتی پالیسی متعارف کرانی چاہیے ۔