افغان صدر کا 3 ماہ کیلئے مشروط اعلان جنگ بندی

کابل (امت نیوز) افغانستان کے صدر اشرف غنی نے آج پیر سے 3 ماہ کیلئے مشروط جنگ بندی کا اعلان کر دیا، جبکہ طالبان امیر مولوی ہیبت اللہ اخونزادہ نے عیدالاضحیٰ پر پیغام میں افغانستان پر غیر ملکی قبضے تک جنگ جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے، جبکہ افغان صدر کے سابق خصوصی نمائندہ احمد ضیا مسعود نے الزام لگایا ہے کہ طالبان کابل پر حملے کی تیاری کر رہے ہیں اور افغان حکومت طالبان کی مالی اور فوجی مدد کر رہی ہے، جبکہ فاریاب میں طالبان نے ضلع بل چراغ پر قبضہ کر لیا ہے اور ضلع گریزوان پر قبضے کیلئے شدید لڑائی جاری ہے۔ افغان میڈیا کے مطابق اتوار کی شام افغانستان کی یوم آزادی پر ایک مہمان وفد سے خطاب میں افغان صدر اشرف غنی نے کہا کہ طالبان کے ساتھ مشروط جنگ بندی آج پیر کے روز سے شروع ہوگی اور 19نومبر تک جاری رہے گی۔ انہوں نے کہا کہ جنگ بندی پر صرف اسی صورت عمل کیا جائے گا اگر طالبان اس کا احترام کریں۔انہوں نے کہا کہ عید الاضحیٰ قریب آرہی ہے اور ہم مذہبی اسکالرز، سیاستدان، خواتین اور سول سوسائٹی کے ارکان، 34صوبوں میں نوجوانوں اور اعلیٰ امن کونسل کے ارکان، حرمین شریفین میں جمع ہونے والے اسلامی دنیا کے مذہبی اسکالرز، او آئی سی اور خادم حرمین شریفین شاہ سلمان کی خواہشات کا احترام کرتے ہوئے جنگ بندی کا اعلان کرتے ہیں، جس پر آج پیر کو یوم عرفہ سے 12ربیع الاول 19 نومبر تک عمل کیا جائے گا، تاہم یہ اس صورت میں ہوگا اگر طالبان بھی اسی جذبے سے جواب دیں اور اس کا احترام کریں۔ افغانستان کے چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ نے کہا کہ اس عید پر یکطرفہ جنگ بندی نہیں ہوگی۔ اتوار کی شام دارالامن پیلس میں یوم آزادی کی تقریب سے خطاب میں ان کا کہنا تھا کہ جب تک فریق مخالف رضامند نہیں ہوتا کوئی جنگ بندی نہیں ہوگی، تاہم انہوں نے کہا کہ اگر طالبان جنگ بندی کا احترام کریں تو پھر جنگ بندی کا اعلان ہو سکتا ہے۔ دوسرے فریق کے تعاون کے بغیر ایسا اقدام بے معنی ہوگا۔ یہ اقدام سیاستدانوں، سیاسی جماعتوں، سماجی تنظیموں اور بیرونی اسٹیک ہولڈرز کے کافی بحث و مباحثے کے بعد کیا گیا ہے۔ قبل ازیں اعلیٰ امن کونسل نے کہا تھا کہ انہوں نے ایک ماہ کے دوران جنگ بندی پر عوامی آرا جمع کر کے سفارشات صدر اشرف غنی کو ارسال کر دی ہیں۔ اعلیٰ امن کونسل کے ترجمان سید احسان نے بتایا کہ افغان عوام، حکومت اور طالبان کے درمیان مستقل جنگ بندی چاہتے ہیں، تاکہ دونوں فریق ایک دوسرے پر اعتماد قائم کرکے براہ راست بات چیت شروع کرسکیں۔ افغان پارلیمنٹ کے ارکان نے بتایا کہ اس بار جنگ بندی یکطرفہ نہیں، بلکہ دو طرفہ ہونی چاہیے۔ ممبر پارلیمنٹ علی کاظمی نے بتایا کہ جنگ بندی دو طرفہ اور اس کی ضمانت ہونی چاہیے، تاکہ پائیدار امن کیلئے راہ ہموار ہو سکے۔ دریں اثنا طالبان کےسربراہ مولوی ہیبت اﷲ اخوندزادہ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ جب تک افغانستان پر غیر ملکی فوج قابض ہے، تب تک جنگ جاری رہے گی۔ عیدالاضحیٰ پر جاری بیان میں انہوں نے کہا ہے کہ ریاست میں اس وقت تک امن قائم نہیں ہو سکتا، جب تک یہاں غیر ملکی فوجی دستے موجود ہیں۔ طالبان رہنما نے مزید کہا کہ جنگ صرف اسی صورت میں ختم ہو سکتی ہے، جب طالبان اور امریکہ کے مابین براہ راست بات چیت ہو۔ ساتھ ہی ہیبت اللہ نے یہ بھی کہا کہ طالبان اسلامی مقاصد کے حصول کا تہیہ کیے ہوئے ہیں۔ ادھر طالبان سربراہ نے طالبان جیلوں میں قید سرکاری اہلکاروں اور فوجیوں کو رہا کرنے کا حکم دیا ہے۔ طالبان کا جیل خانہ جات امور کمیشن آج پیر کے روز ان قیدیوں کی رہائی کیلئے کام کر رہا ہے۔ ادھر افغان صدر اشرف غنی کے سابق خصوصی نمائندہ احمد ضیا مسعود نے الزام لگایا ہے کہ افغان حکومت طالبان سے ہمدردی رکھتی ہے اور کابل انتظامیہ طالبان کی مالی اور فوجی مدد کررہا ہے۔افغان صدر کے سابق نمائندہ خصوصی اور نئے گرینڈ نیشنل الائنس کے رکن احمد ضیا مسعود نے کابل میں ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ طالبان کابل پر حملے کی تیاری کر رہے ہیں اور افغان حکومت اس منصوبے سے آگاہ ہے لیکن حملہ روکنے کیلئے کچھ نہیں کر رہی ہے۔ کابل یا دوسرے صوبوں پر طالبان حملے قرین از قیاس نہیں۔طالبان اور حکومت دونوں باہمی رابطے میں رہتے ہیں تاکہ امن عمل کیلئے طالبان کے صوبوں پر حملوں کی قیمت پر کیسے کام کیا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ کابل کے لوگوں کو اس کیلئے تیار رہنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ طالبان کی مالی مدد اور سازوسامان کی فراہمی کا واحد ذریعہ افغان حکومت خود ہے۔ انہوں نے طالبان کو بتایا ہے کہ وہ ان کیخلاف کچھ نہیں کریں گے اور جب وہ یعنی طالبان آئینگے تو انہیں فوجی اڈوں میں تمام ساز وسامان حوالے کر دینگے۔ ہمیں علم ہے کہ حکومت طالبان کی مالی مدد کر رہی ہے۔گرینڈ نیشنل کو آلیشن کے ایک اور رکن ہمایوں ہمایوں نے بتایا کہ افغان صدر کو ہٹانا چاہیے۔ صدارتی محل نے احمد ضیا مسعود کے الزامات کے جواب میں کوئی رد عمل نہیں دیا ہے۔ ادھر افغانستان کے شمالی صوبے فاریاب میں طالبان نے حملہ کرکے ایک ضلع پر قبضہ کرلیا، جبکہ 100افغان فوجیوں نے طالبان کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے۔ افغان صوبے فاریاب کے ضلع بلچراغ پر طالبان نے بڑا حملہ کیا اور شدید لڑائی کے بعد ضلع پر طالبان کا قبضہ ہوگیا ہے، جس کے بعد وہاں موجود 100افغان فوجیوں کا کوئی پتا نہیں چل رہا۔ افغان حکام کا کہنا ہے کہ ممکن ہے سیکورٹی اہلکاروں نے ہتھیار ڈال دیئے ہوں اور اب وہ طالبان کی حراست میں ہوں۔ فاریاب کے ایک اور ضلع گریزوان میں بھی جنگجوؤں اور افغان افواج کے درمیان شدید جھڑپیں جاری ہیں اور اس پر بھی قبضہ ہونے کا خدشہ ہے۔ ادھر افغان دارالحکومت کابل میں بھی صبح سویرے 2راکٹ کلی زمان خان میں گرے، تاہم جانی نقصان نہیں ہوا۔ بین الاقوامی میڈیا کے مطابق 15اگست کو بھی طالبان نے فاریاب کے ضلع غرمچ میں حملہ کرکے فوجی اڈے پر قبضہ اور وہاں موجود درجنوں فوجیوں کو گرفتار کرلیا تھا، حملے میں 43افغان فوجی ہلاک ہوگئے تھے۔ واضح رہے کہ 10اگست سے طالبان نے ملک کے مختلف حصوں میں نئے حملے شروع کئے ہیں، جس میں اب تک سیکڑوں افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ اس مہم میں سب سے خوفناک لڑائی غزنی شہر میں ہوئی، جہاں 200سے زائد افغان فوجی مارے گئے۔ادھر امریکی و افغان فوجوں نے صوبہ میدان کے ضلع سیدآباد میں پٹھان خیل گاؤں پر چھاپہ مار کر عوام پر تشدد کیا اور شدید بمباری بھی کی گئی، جس کے نتیجے میں گاؤں کی مسجد شہید اور 2 مکانات منہدم ہوئے۔ امریکی فوجوں نے 15نہتے افراد کو بھی حراست میں لیا۔

Comments (0)
Add Comment