اسلام آباد /کراچی (مانیٹرنگ ڈیسک /ایجنسیاں) سیاسی رہنماؤں اور تجزیہ نگاروں نے نومنتخب وزیر اعظم کے پہلے خطاب پر ملے جلے رد عمل کا اظہار کیا ہے۔ پیپلز پارٹی کے رہنما اور سندھ کے وزیر بلدیات سعید غنی نے شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ عمران کے خطاب میں پرویز مشرف کے 5 نکاتی ایجنڈے کے سوا کچھ نیا نہیں تھا، وہ 70 ہزار پاکستانیوں کے قاتلوں کے خلاف ایک لفظ نہ بولے۔ دہشت گردی اور شدت پسندی جیسے معاملات پر بھی ساکن رہے۔ سعید غنی نے مزید کہا کہ وزیر اعظم کو سی پیک اور این ایف سی ایوارڈ پر پالیسی بیان دینا چاہئے تھا۔ مردم شماری پر سندھ کے اعتراضات اور چھوٹے صوبوں کے آئینی اختیارات پر بھی کچھ نہیں کہا۔ کراچی کے گراؤنڈز پر قبضے کرنے والے وزیر اعظم کے اتحادی ہی ہیں۔ ن لیگ کے مرکزی رہنما احسن اقبال نے کہا کہ تحریک انصاف وزیر خارجہ مقرر نہ کرنے پر ہم پر تنقید کرتی رہی، تاہم اب عمران خان نے خود ڈیڑھ درجن وزارتیں اپنے پاس رکھ لی ہیں۔ بالخصوص وزیر داخلہ کا اعلان نہ کرکے انہوں نے لاپروائی کا مظاہرہ کیا ہے۔اے این پی کے رہنما حاجی غلام احمد بلور نے کہا کہ عمران نے جن مسائل کا ذکر کیا وہ سب گپ شپ تھی۔ان کی تقریر میں سب سے اہم چیز خارجہ پالیسی کا ذکر تک نہیں تھا، وہ باتیں کرتے کیوں ہو، جو کر نہیں سکتے۔ سابق وزیر اطلاعات سندھ مولابخش چانڈیو نے کہا کہ عمران کی باتیں اچھی، لیکن کسی طاقتور این جی او کے سربراہ کی تقریر لگ رہی تھی۔ انہوں نے جمہوریت کے استحکام اور پارلیمنٹ کی بالادستی پر کوئی بات نہیں کی۔ دریں اثنا سینئر صحافی و تجزیہ نگار سہیل وڑائچ نے کہاکہ عمران خان نے اپنی تقریر میں آئی ایم ایف سے قرضہ لینےسے انکار کیا، لیکن اب دیکھنا ہوگا کہ یہ کس طرح ہوتا ہے۔ 1998 کے بعد اوورسیز پاکستانیوں نے پاکستان میں پیسہ رکھنا بند کردیا ہے۔ شاید اب بھیجنا شروع کر دیں کیونکہ انہیں عمران پر یقین ہے، تاہم ڈیم بنانے اور دیگر مسائل حل کرنے کیلئے جتنے ڈالر چاہئیں وہ نہ مل سکیں۔ سلیم صافی نے کہاکہ اگر عمران خان نے جو دعوے کئے، پورے کر دیئے تو یہ بہت بڑی غنیمت ہوگی، لیکن وہ اکیلے پاکستان کو نہیں چلائیں گے، ان کی منتخب کردہ ٹیم میں وہی روایتی لوگ ہیں، جس میں میرٹ کے بجائے صرف سیاسی ضرورتوں کا خیال رکھا گیا ہے، جس طرح عمران نے بیوروکریسی کی بات کی تو ابھی تک انہوں نے ایک تقرری کی جو اعظم سواتی کی ہے، اس طرح خرچہ بچانے کی بات کی گئی ہے تو کل پی ایم ہائوس میں جو بیڈ تھا اسے عمران خان نے خود تبدیل کرا دیا، جب وہ قوم سے خطاب کر رہے تھے تو پی ایم ہائوس میں 250 لوگوں کا ڈنر ہو رہا تھا۔دوسری جانب عمران خان نے نواز شریف کے اخراجات کی تفصیل مانگی تو پتہ چلا کہ سابق وزیراعظم نے اپنے اور اپنی فیملی کے تمام اخراجات اپنی جیب سے ادا کیے ہیں۔ سلیم صافی کا کہنا تھا کہ جب وزیراعظم اپنا پہلا خطاب کرتا ہے تو زیادہ توجہ بیرون ملک کی باتوں پر ہوتی ہے، لیکن ان کی تقریر میں نہ تو کشمیر کا ذکر کیا گیا نہ ہی چین اور امریکہ کی بات ہوئی نہ ہی بلوچستان کے معاملات اٹھائے گئے۔
اسلام آباد (رپورٹ: اختر صدیقی) سینئر قانون دانوں نے کہا ہے کہ ماضی کی حکومتوں کی طرح تحریک انصاف محض دعوؤں تک محدود رہی تو پھر اس ملک میں کوئی کسی سیاسی شخصیت پر اعتبار نہیں کرے گا۔ وزیر اعظم عمران خان سب سے پہلے اپنی جماعت کے بڑوں سےٹیکس اکٹھا کریں، تاکہ باقی لوگوں کے لیے مثال بن سکے۔ بلدیاتی نظام پر ہم نے اب تک کھربوں روپے خرچ کردیئے ہیں، اب مزید تجربات کی بجائے موجودہ نظام کو ہی بہتر کرکے اس سے عوام کی خدمت کی جانی چاہیے۔ وزیر اعظم ہاؤس سے ملازمین کو فارغ کرنے سے بے روزگاری کا طوفان آجائیگا اورانہیں دیگر اداروں میں کھپانے کی ضرورت ہوگی، جہاں پہلے ہی ضرورت سے زائد ملازمین کام کر رہے ہیں۔ ‘‘امت’’ سے گفتگو کرتے ہوئے بیرسٹر ڈاکٹر محمود اسلم کا کہنا تھا کہ ماضی کی حکومتیں بھی اس طرح کے دعوے کرتی رہی ہیں، مگر عملی طور پر وہ ناکام رہیں، عدلیہ میں انصاف کی فراہمی میں سب سے اہم معاملہ مقدمات کا سالہا سال تک چلنا ہے اور اب ان کو ایک سال تک فیصلہ کے لیے محدود کرنا اچھی تجویز ہے۔ اس کے لیے بنچ اور بار کا تعاون ناگزیر ہے۔ تقریر قومی ایشوز سے متعلق تھی، مگر عوام کو دعوؤں کی چکی میں پھر سے پسنے کے لیے نہیں چھوڑ دینا چاہیے۔ اب عملی کام ہونے چاہئیں۔ جسٹس (ر)کمال احمد نے کہاکہ ٹیکس اکٹھا کرنے کے لیے امیروں پر ہاتھ کیوں نہیں ڈالا جاتا، ہر بار قوم سے قربانی مانگی جاتی ہے، اس بار تو قربانی کے مہینے میں مانگی جارہی ہے، میرا تو خیال یہ ہے کہ عوام جانوروں کے ساتھ اپنی کھالیں بھی حکومت کو دے، تحریک انصاف میں موجود لوگ خود ٹیکس نہیں دیتے تو باقی لوگوں سے کیسے ٹیکس اکٹھا کیا جائیگا۔ سرکاری اسکولوں کا نظام بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ نجی اسکولوں کو بھی اپنے قابو میں کیا جانا چاہیے۔ احمداویس، اظہر صدیق، زیڈ اے بھٹہ اور دیگر نے کہا کہ تحریک انصاف کی خیبر پختون حکومت نے عملی طور پر کچھ بھی نہیں کیا، اب مرکز میں آکر لوگوں کو کیوں خواب دکھائے جارہے ہیں۔ چیف جسٹس پاکستان وہاں کے اسپتالوں کی حالت زار پر تنقید کر چکے ہیں۔ قرض نہ لینے کی بات تو اچھی ہے، مگر آئی ایم ایف کو اگلی قسط دینے کا معاملہ کون حل کرے گا۔ ملک میں توانائی بحران ہے کئی کئی گھنٹے بجلی بند رہتی ہے اس کو حل کرنا ہوگا۔ مدارس کے بچوں کو دنیاوی تعلیم دینے کے لیے علما کرام سے بات کرنا ہوگی تبھی اس پر عمل درآمد ہوسکے گا۔