کراچی(اسٹاف رپورٹر)مضار بہ اسکینڈل کے مرکزی کردار اشتہاری شفیق الرحمن اور ان کے ساتھی ملزمان کے خلاف نجی بینکوں کے گواہوں نے بیان ریکارڈ کراتے ہوئے کہا ہے کہ شفیق الرحمان کے بینک اکاؤنٹ جعلی نہیں تھے جن سے اربوں روپے کی ٹرانزیکشن ہوتی تھی کئی اکاؤنٹ شفیق الرحمن کے ساتھی ملزمان استعمال کرتے تھے نیب کے تفتیش کار ساڑے 5 ارب روپے سے زائد کے ریفرنس میں مطلوب ملزم شفیق الرحمان کا سراغ نہیں لگاسکے ہیں سینکڑوں کی تعداد میں متاثرین کو رقوم نہیں مل سکی ہیں تفصیلات کے مطابق احتساب عدالت کراچی میں ایم سی بی ،الائیڈ بینک،برج بینک سمیت دیگر 6 سے زائد نجی بینکوں کے برانچ منیجر سمیت دیگر افسران نے بیان ریکارڈ کراتے ہوئے بتایا کہ نیب حکام کو شفیق الرحمان سمیت دیگر ملزمان کا ریکارڈ فراہم کر دیا گیا تھا کئی اکاؤنٹ ملزم شفیق الرحمن کے نام تھے جن میں شفیق الرحمن کے دستخط سے جاری ہونے والے چیک کے ذریعے رقم جاری کی جاتی تھی جو کہ خطیر رقم بنتی ہے اسی طرح بعض اکاؤنٹ شفیق الرحمن کے بھائی انعام اکبر ساتھی ملزم مفتی نادر جان سمیت دیگر کے ناموں پر تھے جب مذکورہ ملزمان نے اکاؤنٹ کھولے تو کروڑوں روپے کی رقوم موجود تھیں، بعد میں بھی رقوم آتی رہیں اور چیکوں کے ذریعے کسٹمر وصول کرتے رہے جن پر انعام اکبر اور مفتی نادر جان کے دستخط تھے نیب کے تفتیش کاروں کا کہنا ہے کہ مضاربہ اسکینڈل کے مرکزی کردار شفیق الرحمن سمیت دیگر ملزمان نے ملی بھگت سے بینک اکاؤنٹ کھولے ہوئے تھے جن کے ذریعے لوگوں کو سرمایہ کاری کے نام پر لوگوں سے پیسے وصول کیے جاتے تھے پھر انہیں معاہدہ کے تحت منافع کی صورت میں رقم دی جاتی تھی جب رقم اربوں روپے میں چلی گئی تو ملزم لوگوں کے پیسے ہڑپ کر گیا تھا،ریکارڈ کے مطابق نیب کے تفتیش کار اشتہاری شفیق الرحمن کا ساڑھے 3 سال کا عرصہ گزر جانے کے باوجود سراغ نہیں لگاسکے ہیں جس کے باعث سینکڑوں متاثرین کو رقوم نہیں مل سکی ہے ملزم شفیق الرحمن نے فروری 2015 میں تقریبا 80کروڑ روپے کے عوض ضمانت حاصل کی تھی جس کے بعد سے وہ غائب ہے۔