کراچی(امت نیوز)بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق وزیر اعظم عمران خان چاہیں تو اصلاحات و ٹیکس کا دائرہ کار بڑھانا غیر معمولی یا نا ممکن العمل نہیں۔عمران کو صرف معمولی بہتری لانی ہو گی جو نمایاں فرق کا سبب بن سکتی ہے۔عمران خان کی فی الحال سیاسی مجبوریاں نہیں ہیں۔ان کے بارے میں تاثر ہے کہ وہ دوستیوں خاص طور پر سیاسی ایجنڈے کی مخالف سیاسی دوستیوں کی پروا نہیں کرتے۔ پاکستان میں گورننس کے معاملات اتنے خراب ہیں کہ ان میں معمولی بہتری بھی بہت نمایاں فرق لا سکتی ہے۔22 برس سال قبل جب عمران خان سیاست میں آئے، اس وقت ملک میں معاشی اصلاحات کا ایجنڈا زیر بحث تھا اور نواز دور کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار وزیر خزانہ تھے جنہوں نے ملک بھر میں سروے کرائے لیکن صنعت کاروں نے ٹیکس بڑھانے اور نئے ٹیکس دینے سے انکار کر دیا تھا اور بات بڑھنے پر انہوں نے وزیر اعظم سے ملاقات کر کے اپنی سیاسی حمایت کے واسطے دیے۔جنرل مشرف نے اقتدار میں آ کر ڈنڈا لہراتے ہوئے کہا کہ ٹیکس نہ دینے والے لوگوں کی ملک میں کوئی جگہ نہیں۔ پھر انہیں اچانک پتہ چلا کہ ملک میں 80 فیصد سے زائد کاروبار زبانی کلامی چلتا ہے ۔ اس پر انہوں نے معیشت کی دستاویز بندی کی مہم شروع کی لیکن تاجروں نے سر عام فارم جلانا شروع کر دیے جو اس حکم کے ساتھ بھیجے گئے تھے کہ انہیں پر نہ کرنا جرم ہو گا۔ تاجروں اور کاروباریوں نے نہ صرف ایف بی آر کیساتھ رجسٹرڈ ہونے سے انکار کیا بلکہ ملک بھر میں ہڑتال اور مظاہرے شروع کر دیے۔ حالات اتنے خراب ہوئے کہ مشرف نے یہ عمل ہی معطل کر دیا۔پیپلز پارٹی دور میں اصلاحات کی بحث وزارتِ خزانہ کی راہداریوں میں کھو گئی ۔نواز شریف کی تیسری حکومت نے نئے ٹیکس دہندگان سامنے آنے کی امید پر ٹیکس شرح گھٹائی لیکن عملاً ایسا نہیں ہو سکا۔ نواز شریف نے ایک بار پھر جب ہاتھ ڈالا تو صنعت کے شعبے میں ان کی سیاسی لابی آڑے آ گئی اور کہا جانے لگا کہ ان سے پنگا ٹھیک نہیں۔