لاہور(خبرایجنسیاں)چیف جسٹس ثاقب نثار نے پنجاب میں شہبازدور میں بنائی گئی 56 سرکاری کمپنیز سے متعلق کیس میں نیب سربراہ جاوید اقبال کو پراسیکیوٹر جنرل اصغر حیدر کے ہمراہ 27اگست کو اپنے چیمبر میں طلب کرلیا ہے۔چیف جسٹس نے قرار دیا کہ عدالت میں جرم ثابت ہوئے بغیر نیب کیسے کسی کو مجرم کہہ سکتا ہے؟۔نیب کو لوگوں کی پگڑیاں اچھالنے کا کوئی حق نہیں ۔کیا نیب یہ چاہتا ہے کہ بیرونی سرمایہ خوف سے بھاگ جائیں۔میڈیا کو خبریں دینے والےافسران و اہلکاروں کیخلاف کارروائی ہونی چاہئے۔کسی کی طلبی کا معاملہ خفیہ ہی ہونا چاہئے۔میڈیا پر پہلے ہی خبر چلنے کی وجہ سے کسی انسان کی کیا عزت رہ جائے گی ،ممکن ہے کوئی انسان انکوائری میں بے گناہ ثابت ہوجائے ۔جسٹس اعجاز الاحسن نے قرار دیا کہ نیب میں بھی کالی بھیڑیں ہیں، ملزمان کو نوٹس بعد میں ملتا ہے ، چینلز پر خبریں پہلے ہی نشر ہوجاتی ہیں ۔نیب کے ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل اصغر حیدرنے عدالت کو بتایا کہ نیب میں بھی خود احتسابی کا عمل جاری ہے۔سماعت کے دوران نیب کے پراسیکیوٹر جنرل اصغر حیدر نے 3 لاکھ روپے سے زائد تنخواہیں وصول کرنے والے افسران کی رپورٹ عدالت میں پیش کی، جس پر چیف جسٹس نےافسران کو اضافی تنخواہیں3 ماہ میں واپس کرنے کا حکم دیا۔