وائس چانسلر سندھ یونیورسٹی کی 2 مرتبہ ریٹائرمنٹ کا انکشاف

کراچی(رپورٹ: راؤافنان)سندھ یونیورسٹی کے وائس چانسلر فتح محمد برفت کی 2 بار ریٹائرمنٹ کا انکشاف ہوا ہے۔عدالتی فیصلے کے مطابق 2011 میں ریٹائر ہوچکے،فیصلے کے بعد شعبے کے چیئرمین رہے اور گزشتہ سال سندھ یونیورسٹی کے وائس چانسلر مقرر ہونے پر جامعہ کراچی کی پروفیسر شپ سے دوبارہ ریٹائر ہوئے،وائس چانسلر فتح محمد برفت کے مطابق مذکورہ عدالتی فیصلہ سینڈیکیٹ کے رکن سینیٹر عبدالحسیب خان کے کہنے پر غلط اطلاعات کی بنیاد پر لکھا گیا، تاہم وہ کیس میں فریق نہ ہونے کے باعث اسے چیلنج نہ کر سکے۔تفصیلات کے مطابق سندھ یونیورسٹی کے وائس چانسلر فتح محمد برفت جو جامعہ کراچی کے شعبہ سوشیالوجی اور جرمیات کے چیئرمین بھی رہے ان کی 2بار جامعہ کراچی سے ریٹائر ہونے کا انکشاف ہوا ہے ۔مذکورہ انکشاف آئینی درخواست D-1907/2011کی سماعت کے بعد عدالتی فیصلے میں ہوا ۔یہ درخواست شعبہ جرمیات کے اس وقت کے طالبعلم اور سندھ یونیورسٹی کے شعبہ جرمیات کے موجودہ چیئرمین ڈاکٹر نبی بخش ناریجو کی جانب سے دائر کی گئی تھی۔مذکورہ عدالتی فیصلے کے مطابق جامعہ کراچی کے وکیل نے عدالت عالیہ میں دلائل دیتے ہوئے بتایا کہ ڈاکٹر فتح محمد برفت ریٹائر ہوچکے ہیں اور شعبہ جرمیات کوئی وجود ہی نہیں رکھتا،معلوم ہوا ہے کہ مذکورہ عدالتی فیصلے میں بات تحریری طور پر لکھی گئی ہے، تاہم فتح محمد برفت کی ریٹائرمنٹ سے متعلق درخواست گزار، جامعہ انتظامیہ اور نہ ہی ڈاکٹر فتح محمد برفت کی جانب سے مذکورہ فیصلے کو تاحال چیلنج نہیں کیا گیا،معلوم ہوا ہے کہ فتح محمد برفت کو جنوری 2017کو اس وقت کے قائم مقام گورنر کی جانب سے آئندہ 4سال کے لئے وائس چانسلر مقرر کیا گیا۔ نوٹیفیکیشن جاری ہوجانے پر انہوں نے جامعہ کراچی سے ریٹائرمنٹ لے لی،معلوم ہوا ہے کہ اس کے علاوہ فتح محمد برفت کی تاریخ کے پیدائش بھی سرکاری ریکارڈ میں 2 مرتبہ اندراج کئے جانے کا بھی انکشاف ہوا ہے۔ذرائع سے حاصل ہونے والے دستاویزات کے مطابق شناختی کارڈ نمبر 4250132492257 پر تاریخ پیدائش 18فروری 1957ہے جبکہ گزشتہ سال اپریل میں چین کے سفر کے لئے اور گزشتہ سال اکتوبر میں انہیں پاسپورٹ نمبر GJ0152253میں ان کی تاریخ پیدائش یکم جنوری 1957درج ہے ۔جبکہ ریٹائرمنٹ سے متعلق وائس چانسلر فتح محمد برفت کا کہنا تھا کہ مذکورہ آئنی درخواست میں وہ فریق نہیں تھے جبکہ مذکورہ فیصلے میں انہیں ریٹائر قرار دیا گیا جو کہ اس وقت کے جامعہ کراچی کی سینڈیکیٹ کے رکن سینیٹر عبدالحسیب خان کی جانب سے جامعہ کے وکیل کے ذریعے عدالت سے غلط بیانی کی گئی،جب ان سے پوچھا گیا کہ مذکورہ عدالتی فیصلے کو انہوں نے یا جامعہ انتظامیہ سمیت فریق میں سے کسی نے چیلنج کیوں نہیں کیا ،جس پر ان کا کہنا تھا کہ جب وہ فریق ہی نہیں تھے اور انہیں تو اس عدالتی فیصلے کا کئی برسوں بعد پتہ چلا۔‘‘امت’’ سے گفتگو کرتے ہوئے ماہر قانونی ایڈووکیٹ ندیم ہاشمی کا کہنا تھا کہ مذکورہ عدالتی فیصلے میں جو لکھا گیا اس کو مکمل قانونی حیثیت حاصل ہے جبکہ عدالت سے حقائق چھپانا سنگین جرم ہے۔ان کا کہنا تھا کہ اگر عدالت میں جامعہ کے وکیل کی جانب سے غلط بیانی کی گئی تو فتح محمد برفت کی ذمہ داری تھی کہ وہ اپنی ریٹائرمنٹ سے متعلق غلط بیانی کے خلاف درخواست دیتے تاہم کسی کی جانب سے ان کی ریٹائرمنٹ سے متعلق بات کو چیلنج نہ کرنے پر اس کے بعد سے جتنا عرصہ وہ شعبے کے چیئرمین رہے اور جتنی بھی ان کو تنخواہیں جاری ہوئی سب غیر قانونی ہے۔انہوں نے کہا کہ سرکاری افسر کی جانب سے 2تاریخ پیدائش سرکاری ریکارڈ میں اندراج کرنا بھی سنگین نوعیت کا جرم ہے اور ان کے خلاف ایکشن ہونا چاہیے۔

Comments (0)
Add Comment