امیر جماعت اسلامی کا مزید100سال جدوجہد کا اعلان

لاہور (صباح نیوز) امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق کا کہنا تھا کہ جماعت اسلامی پاکستان میں نظام مصطفی ؐچاہتی ہے۔اس مقصد کے لئے مزید 100 سال بھی لگے تو جدوجہد جاری رکھی جائے گی۔موثر انتخابی نتائج نہ نکلنے پر کمیٹیاں بنا دی گئی ہیں ۔شاید ابھی کامیابی کا وقت نہیں آیا ۔موجودہ حکومت میں بھی وہی لوگ شامل ہیں جو ماضی میں مشرف ،قائد لیگ،پیپلز پارٹی و نواز لیگ کا حصہ رہے۔ ان کا نظریہ آج بھی وہی ہے صرف جھنڈا بدلا ہے۔عمران خان کو وعدوں کی تکمیل کیلئے 6ماہ دیتے ہیں۔ اس عرصہ میں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔انہوں نے ان خیالات کا اظہار 77ویں یوم تاسیس کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔امیر جماعت اسلامی کا کہنا تھا کہ جماعت اسلامی کی ابتدا 100 سے بھی کم افراد کے ساتھ ہوئی لیکن یہ آج عالمگیر جماعت ہے ۔ جماعت اسلامی کے منشور میں شامل ہے کہ اللہ کے بندوں کو اللہ اور نبی کی جانب بلایا جائے اور اسلامی نظام کے قیام کے لئے پر امن جدوجہد قانونی دائرہ کے اندر رہتے ہوئے کی جائے۔حالیہ انتخابی نتائج کے حوالے سے امیر جماعت اسلامی نے کہا کہ مرکزی اور صوبائی شوری نے دینی جماعتوں کو اکٹھا کرنے کیلئے کہا تھا ،اسی پر عمل کیا گیا تھا ۔ جماعت اسلامی کا مقصد صرف سیاسی کامیابی حاصل کرنا نہیں بلکہ عوام کو دین کی دعوت اور فلاحی امور بھی سرانجام دینا ہے جس پر وہ عمل پیرا ہے ، شاید ابھی کامیابی کا وقت نہیں آیا تھا ۔ہم اپنے مقاصدمیں کسی مصلحت سے کام نہیں لیں گے۔ انتخابات میں موثر نتائج حاصل نہ ہونے اور دیگر معاملات پر مرکزی شوری نے کمیٹیاں تشکیل دے دی ہیں۔دنیا بھر کے 57 اسلامی ممالک ملکر ہالینڈ پر دباؤ ڈالیں اور اسےگستاخانہ مقابلے سے منع کریں ۔ تقریب سے احمد بلال ، جماعت اسلامی پاکستان کے نائب امیر فرید احمد پراچہ، ضلعی امیر ذکر اللہ مجاہد و دیگر مقررین نے بھی خطاب کیا۔اس موقع پر ہالینڈ میں گستاخانہ خاکوں کے مقابلے کیخلاف متفقہ مذمتی قرارداد منظور کی گئی۔ قرار داد میں حکومت پاکستان سے ہالینڈ میں گستانہ خاکوں کا مقابلہ رکوانے کیلئے اقوام متحدہ سمیت دنیا بھر میں احتجاج،او آئی سی اجلاس بلانے اور ہالینڈ کی سفیر کی طلب کا مطالبہ کیا گیا ۔قرار داد میں کہا گیا کہ اگر احتجاج کے باوجود ہالینڈ کی حکومت گستاخانہ مقابلے کے منتظمین کی سرپرستی سے باز نہیں آتی تواس کے سفیر کو ملک بدر کیا جائے کیونکہ یہ کسی ایک شخص کا نہیں بلکہ دنیا بھر کے مسلمانوں کے مذہبی جذبات کا مسئلہ ہے۔

Comments (0)
Add Comment