کراچی( رپورٹ :عمران خان ) ایف آئی اے نے 35ارب روپے منی لانڈرنگ کیس میں سمٹ بینک سے ملنے والے ریکارڈ کی روشنی تحقیقات کو آگے بڑھانے کے لئے انور مجید کے اومنی گروپ کی کھوسکی شوگر مل بدین پر چھاپہ مار کر شعبہ اکاؤنٹس اور شعبہ ایڈمن کاتمام ڈیجیٹل ریکارڈ تحویل میں لے لیا اور4 افسران کو گرفتار کر لیا گیا جنہیں مقامی تھانے میں ہی رکھا گیا ہے ۔معلوم ہوا ہے کہ چھاپے سے قبل وہاں بعض دستاویزات جلائی جارہی تھیں ۔تحقیقاتی ٹیم کے ارکان نے آگ بجھاکر بچی کچھی دستاویزات اور جلے کاغذ تحویل میں لے لئے اور فیکٹری کے ڈائریکٹر ایڈمن اور اکاؤنٹ آفیسر سے پوچھ گچھ کی گئی کہ ریکارڈ کو کس کے کہنے پر آگ لگائی گئی تھی۔ ایف آئی اے کے ذرائع نے بتایا کہ انور مجید کی گرفتاری کے بعد وفاقی تحقیقاتی ادارے کی جانب سے اومنی گروپ کے خلاف گھیرا تنگ کئے جانے کے بعد منی لانڈرنگ کے شواہد کسی دوسرے مقام پر منتقل کرنے کیلئے ایک کنٹینر کھوسکی شوگرمل لایا گیا جس میں شعبہ اکاؤنٹ اور ایڈمن کا ریکارڈ بھرا جا رہا تھا کہ انفارمیشن لیک ہونے پر ایف آئی اے کی ٹیم چھاپہ مارنے پہنچ گئی۔اتوار کے روز کراچی سے جانے والی دو گاڑیوں میں سوار ایف آئی اے ٹیم نے رینجرز کی تین موبائلوں کے ہمراہ کھوسکی شوگر مل پر چھاپہ مارا ۔ صبح 10بجے سے شام 4بجے تک جاری رہنے والی اس کارروائی میں کرچی سے جانے والی ایف آئی اے کی ٹیم نے انور مجید کے اومنی گروپ اور سمٹ بینک کے اکاؤنٹس سے کھوسکی شوگر مل کے اکاؤنٹس میں جانے اور آنے والی رقوم کی ٹرانزیکشنز کے حوالے سے تفصیلی پوچھ گچھ کی جبکہ اس دوران انور مجید کی کمپنی کو سندھ میں ٹریکٹرز کی تقسم کے لئے ملنے والے ٹریکٹرز کے حوالے سے بھی معلومات لی گئیں کیونکہ اس شوگر مل اور بروکروں کو انور مجید کے اومنی گروپ کی جانب سے جو رقم ادا کی جانی تھی اس کے عوض انہیں ٹریکٹر دئے گئے حالانکہ یہ ٹریکٹر ہاریوں میں تقسیم کئے جانے تھے اس ضمن میں بھی ایف آئی اے ٹیم نے مل کو ملنے والے ٹریکٹرز اور ان کی تقسیم کے حوالے سے بھی تفصیلی پوچھ گچھ کی گئی اور ریکارڈ لیا گیا جبکہ اس دوران رینجرز کی بھاری نفری نے شوگر مل کو چاروں جانب سے گھیرے میں لئے رکھا اور کسی کو اندر جانے اور اندر سے باہر آنے کی اجازت نہیں دی گئی ،ایف آئی اے کی ٹیم میں شامل افسران اسسٹنٹ ڈائریکٹر محمد علی ابڑو ،سب انسپکٹر عدنان دلاور ،سب انسپکٹر ظہور باچکانی اور انسپکٹر سراج پنہور کے علاوہ سب انسپکٹر حبیب اور دیگر اہلکاروں نے کوسکی شوگر ملز کے شعبہ اکاؤنٹس اور ایڈمن کے افسران جن میں ڈائریکٹر ایڈمن سوڈل رند،انجینئر جاوید ،آئی ٹی انچارج عبدالرشید اور اکاؤنٹ آفیسر محمد افتخار سے تفصیلی تفتیش کی گئی اس پوچھ گچھ کے دوران ایف آئی اے افسران کی جانب سے شوگر مل کی حدود میں لگنے والے پولیس اسٹیشن سے بھی پولیس اہلکاروں کو بلایا گیا اور اس کارروائی کے حوالے سے متعلقہ پولیس اسٹیشن میں انٹری بھی کروائی گئی بعد ازاں ایف آئی اے کی ٹیم نے حراست میں لئے گئے چاروں فیکٹری افسران کو تھانے لے جایا گیا جبکہ ٹیم تحویل میں لئے گئے ریکارڈ جس میں اہم فائلوں کے علاوہ اکاؤنٹس اور ایڈمن کے شعبہ کے کمپیوٹر ز اور لیپ ٹاپ شامل تھے ان کے ساتھ کراچی واپس آگئی ،اس کارروائی کے دوران جب ماتلی اور تلہار کے علاقوں میں قائم انصاری شوگر مل اور باوانی شوگر مل کی انتظامیہ کو ملی تو یہاں پر ہلچل مچ گئی اور ان دونوں ملوں کے شعبہ ایڈمن اور اکاؤنٹس کے افسران دفتر بند کے ملوں سے نکل گئے تھے ،ایف آئی اے ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ اس شوگر مل پر سمٹ بینک کے مرکزی سرور سے فارنسک تحقیقات سے ملنے والی معلومات کی روشنی میں چھاپہ مارا گیا تھا کیونکہ اس ڈیٹا سے معلوم ہوا تھا کہ سمٹ بینک سمیت دیگر دو بینکوں میں کھولے گئے 29بے نامی اکاؤنٹس میں اربوں روپے کی ٹرانزیکشنز کے لئے اومنی گروپ کے شوگر ملوں سے منظوری کی ای میلز کی جاتی رہیں اور ان کی تصدیق اور منظوری کے بعد ہی اربوں روپے کی رقم ان کے اکاؤنٹس سے بے نامی اکاؤنٹس میں ٹرانسفر ہوتی تھی یا پھر ان بے نامی اکاؤنٹس سے اومنی گروپ ،زرداری گروپ اور دیگر کمپنیوں کے اکاؤنٹس میں ٹرانسفر ہوتی رہی تھی ایف آئی اے ذرائع کے بقول آنے والے دنوں میں ایسے ہی چھاپے ان تمام کمپنیوں کے دفاتر میں دیکھنے میں آئیں گے جن کے اکاؤنٹس سے بے نامی اکاؤنٹس میں رقم منتقل کی جاتی رہی ان میں بحریہ ٹاؤن کے ملک ریاض کے داماد زین ملک کے آفس کے علاوہ ڈی بلوچ کمپنی اور اومنی گروپ کی دیگر کمپنیاں شامل ہیں جس کے بعد منی لانڈرنگ میں استعمال ہونے والے بینک اکاؤنٹس کے منی ٹریل کے ساتھ ہی بینک افسران اور اومنی گروپ کے افسران کے ساتھ ہونے والے رابطوں کے ٹریل ریکارڈ بھی اسٹیبلش کرکے تحقیقات کی فائل کا حصہ بنادئے جائیں گے،ایف آئی اے ذرائع کے بقول چھاپے کے دوران ریکارڈ ضائع کرنے کے لئے جلائے جانے کے شواہد ملے ہیں اگر یہ ثابت ہوجاتے ہیں تو انور مجید اور اومنی گرو پ کے خلاف شواہد ضائع کرنے کے جرم کی دفعات کے تحت بھی کارروائی علیحدہ سے عمل میں لائی جائے گی ۔