وائس چانسلر – قائداعظم یونیورسٹی کے فنڈز سے نجی بنک میں سرمایہ کاری کا اعتراف

اسلام آباد ( اویس احمد ) وائس چانسلر قائد اعظم یونیورسٹی ڈاکٹر جاوید اشرف نے کہا ہے کہ انہوں نے جامعہ کے انڈوومنٹ فنڈ کے 75 کروڑ روپے غیر قانونی طور پر کم ریٹنگ والے نجی بینکوں میں جمع کروانے اور جامعہ کی سکیورٹی کے لیے ہائیر کی گئی کمپنی کو تبدیل کرنے کے فیصلے صدر پاکستان کے سیکرٹری شاہد شیخ اور اپنے ایک دوست کے مشوروں پر کیے ہیں۔قائد اعظم یونیورسٹی کی اکیڈمک اسٹاف ایسوسی ایشن کی جانب سے ان پر لگائے گئے الزامات کی تحقیقات کیلئے وزارت تعلیم کی جانب سے قائم کمیٹی کو جمع کروائے گئے اپنے تحریری جواب میں ڈاکٹر جاوید اشرف نے اعتراف کیا ہے کہ انہوں نے جامعہ کی انویسٹمنٹ کمیٹی کی سفارشات کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنے ایک دوست کے مشورے پر نجی بینکوں میں سرمایہ کاری کو ترجیح دی۔ جامعہ کی سکیورٹی ہائیر کی گئی سکیورٹی کمپنی کو تبدیل کرنے کے حوالے سے ڈاکٹر جاوید اشرف اپنے جواب میں کوئی جواز پیش نہیں کر سکے۔ تاہم انہوں نے نئی سکیورٹی کمپنی ہائیر کرنے کی وجہ بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ نئی سکیورٹی کمپنی کو صدر پاکستان کے سیکرٹری شاہد خان کی سفارش پر ہائیر کیا گیا ہے۔ یہی نہیں، ڈاکٹر جاوید اشرف کے مطابق انہوں نے شاہد خان کے مشورے پر ان کے جاننے والے شخص کو ان ہی کی سفارش پر انہوں نے جامعہ میں منصوبہ بندی و ترقی کا کنسلٹنٹ بھی تعینات کیا جسے سوا لاکھ روپے ماہانہ تنخواہ ادا کی جاتی ہے۔ڈاکٹر جاوید اشرف نے تسلیم کیا ہے کہ جن نجی بینکوں میں جامعہ کے فنڈز سے سرمایہ کاری کی گئی ان کی کریڈٹ ریٹنگ اچھی نہیں تھی، تاہم زیادہ منافع کی پیشکش پر نجی بینکوں میں سرمایہ کاری کی گئی تاکہ جامعہ کو زیادہ مالی فائدہ پہنچ سکے۔اپنے جواب میں ڈاکٹر جاوید اشرف کا کہنا ہے کہ انویسٹمنٹ کمیٹی نے عسکری بینک میں سرمایہ کاری کی سفارش کی تھی جو 6فیصد منافع کی پیشکس کر رہی تھی، جبکہ انہوں نے بینک دبئی اسلامی میں سرمایہ کاری کروائی جس نے سب سے زیادہ 7.35فیصد منافع کی پیشکش کی تھی۔ حالانکہ 16دسمبر 2015کو بینک اسلامک دبئی کی جانب سے جامعہ انتظامیہ کو لکھے گئے خط میں 7.2فیصد منافع کی پیشکش کی گئی، تاہم ساتھ ہی یہ وضاحت بھی کی گئی ہے کہ بینک کے منافع کی شرح ہر ماہ تبدیل ہوتی ہے اس لیے مذکورہ پیشکش صرف ایک ہفتے تک کارآمد ہے ۔دوسری جانب اے ایس اے کا کہنا ہے کہ جامعہ کے ایکٹ کے مطابق یونیورسٹی کے فنڈز کے بارے میں فیصلہ کرنا جامعہ کی فنانس اینڈ پلاننگ کمیٹی کا اختیار ہے، تاہم وائس چانسلر نے اس کمیٹی کو بائی پاس کرتے ہوئے اپنے طور پر انویسٹمنٹ کمیٹی تشکیل دی، لیکن بعد میں اپنی قائم کردہ کمیٹی کی سفارشات کو رد کرتے ہوئے اپنی مرضی کے بینکوں میں سرمایہ کاری کا فیصلہ کر لیا۔ ڈاکٹر جاوید اشرف نجی بینکوں میں سرمایہ کاری کرنے کے فیصلے کا محرک اپنے آئی بی اے کراچی کے زمانے کے ساتھی اورآئی بی اے کے سابق بورڈ آف گورنرز کے رکن افتخار اللہ کو بتاتے ہیں، جن کے بارے میں ان کا دعویٰ ہے کہ وہ مالیاتی معاملات میں مہارت رکھتے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ نیشنل بینک کے سابق ڈائریکٹر افتخار اللہ والا نے ہی نجی بینکوں سے کوٹیشنز حاصل کیں اور پھر انہیں بینک دبئی میں سرمایہ کاری کا مشورہ دیا۔ تاہم اپنے تحریری جواب میں وائس چانسلر ڈاکٹر جاوید اشرف غیر قانونی طور پر جامعہ کے انڈوومنٹ فنڈ کے 50کروڑ روپے ایک اور نجی بینک جے ایس بینک میں جمع کروانے کے بارے میں کوئی جواب نہیں دے سکے۔جامعہ کی دو گاڑیاں اپنے زیر استعمال ہونے کا اعتراف کرتے ہوئے وائس چانسلر نے اپنے جواب میں کہا ہے کہ چونکہ ان کی ایک گاڑی کافی پرانی ہو چکی تھی، اس لیے انہوں نے نئی گاڑی خریدی ہے، حالانکہ اسی جواب میں ان کا کہنا ہے کہ جامعہ کے پاس پنشن اور 13ویں تنخواہ (بونس) کے لیے پیسے موجود نہیں اور یہ کہ جب انہوں نے وی سی کا عہدہ سنبھالا، اس وقت جامعہ ساڑھے 65کروڑ روپے کے خسارے میں تھی۔ جامعہ کی فیکلٹیز میں قائم مقام ڈینز کی تعیناتی میں بے قاعدگیوں کے الزام کے جواب میں وی سی کا کہنا ہے کہ انہوں نے ہمیشہ سب سے سینئر فرد کو قائم مقام ڈین تعینات کیا ہے۔ تاہم ساتھ ہی خود اعتراف کر رہے ہیں کہ فیکلٹی آف نیچرل سائنسز کے قائم مقام ڈین کی تعیناتی میں انہوں نے سب سے سنیئر فرد کو بائی پاس کیا، کیوں کہ مذکورہ فرد غصیلا تھا اور اس کی ریسرچ کا معیار بھی کمزور تھا اور یونیورسٹی کا کوئی قاعدہ انہیں پابند نہیں کرتا تھا کہ وہ سب سے سینئر فرد کو ہی قائم مقام ڈین مقرر کریں۔

Comments (0)
Add Comment