اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک ) سپریم کورٹ نے سابق وزیر اعظم نواز شریف کیخلاف 2 ریفرنسز کی ٹرائل مکمل کرنے کیلئے مزید 6 ہفتے کا وقت دے دیا۔ عدالت نے ہدایت کی کہ احتساب عدالت ہر ہفتے پیشرفت رپورٹ جمع کرائے۔ چیف جسٹس کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے درخواست کی سماعت کی۔ وکیل خواجہ حارث نے کہا میں نے ٹرائل کے ساتھ ہائی کورٹ میں اپیلوں پر بحث بھی کرنا ہے، دونوں ریفرنسز مکمل کرنے کے لئے 3 ماہ کا وقت دیا جائے، ایک ہی وقت میں احتساب عدالت اور ہائی کورٹ میں دلائل نہیں دے سکتا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ آپ بہت زیادہ وقت مانگ رہے ہیں۔ چیف جسٹس نے خواجہ حارث سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا ایسا کریں کہ آپ موکلان کو 6 ماہ جیل میں ہی رہنے دیں، ٹرائل ختم ہو جائے تو پھر اپیلوں پر بحث کر لیں، پچھلی بار مطلوبہ وقت نہ دینے پر آپ کا رویہ اچھا نہیں تھا، آپ نے تو کیس ہی چھوڑ دیا تھا، ان مقدمات کا بیک گراؤنڈ بتائیں، میں نے کبھی دلچسپی نہیں لی۔وکیل خواجہ حارث نے کہا فلیگ شپ حسن نواز کی لندن میں کمپنیوں سے متعلق ہے، ہل میٹل اور العزیزیہ ریفرنس حسین نواز کے کاروبار سے متعلق ہے، ایون فیلڈ ریفرنس کا فیصلہ 6 جولائی کو ہو چکا، فلیگ شپ اور العزیزیہ ریفرنسز دوسری عدالت منتقل ہو چکے، پہلے کہا گیا کہ تینوں ریفرنسز کا فیصلہ اکٹھا کیا جائے گا، بعد میں ایون فیلڈ ریفرنس کا فیصلہ پہلے کر دیا گیا۔ چیف جسٹس نے کہا ہم ٹرائل کورٹ کی کارروائی کو ریگولیٹ نہیں کر سکتے، 3 ماہ کا وقت بہت زیادہ ہے، 6 ہفتے دے سکتے ہیں۔
اسلام آباد(امت نیوز) سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف 2 نیب ریفرنسز کی سماعت آج تک کے لئے ملتوی کر دی گئی ۔اسلام آباد کی احتساب عدالت نمبر 2 کے جج محمد ارشد ملک نے سابق وزیر اعظم کے خلاف العزیزیہ سٹیل ملز اور فلیگ شپ انویسمنٹ ریفرنسز کی سماعت کی۔دونوں ریفرنسز میں نامزد ملزم نواز شریف کو سخت سیکیورٹی میں عدالت لایا گیا،جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیا کا بیان قلمبند کیا گیا۔واجد ضیا نے اس موقع پر بتایا کہ مشاورت کے بعد جے آئی ٹی نے طے کیا کہ ملزمان کے گواہان کو پیشگی سوالنامہ نہیں بھیجا جائے گا جس پر نواز شریف کے وکیل نے سوال کیا کہ کیا اسی فیصلے کو آپ نے جے آئی ٹی رپورٹ کے ساتھ منسلک کیا ہے جس پر ان کا کہنا تھا کہ ایسا نہیں کیا گیا۔واجد ضیا کا کہنا تھا کہ قطری شہزادے کے خط پر مشاورت کے بعد ہم کسی رائے پر نہیں پہنچ سکے کہ اب دوحا جانا ہے یا نہیں، قطری کی شرائط اور دوحا جانے کا معاملہ سپریم کورٹ کے عمل درآمد بینچ کے سامنے رکھا اور دو آپشنز رکھے کہ ہم دوحا جائیں ہی نہیں اور دوسرا آپشن تھا کہ ہم دوحا جائیں لیکن سوالنامہ پہلے نہ بھیجیں۔اس موقع پر وکیل خواجہ حارث نے سوال کیا کہ سپریم کورٹ کو لکھے خط میں بھی یہ ذکر نہیں کیا کہ جے آئی ٹی کسی بھی گواہ کو سوالنامہ نہ بھیجنے کا فیصلہ کر چکی ہے اور کیا جب سوالنامہ نہ بھجوانے کا فیصلہ ہوا تو اس میٹنگ میں عرفان منگی بھی موجود تھے، کیا عرفان منگی نے بتایا تھا کہ نیب مقدمات میں پہلے سوالنامہ بھیجا جاتا ہے۔اس پر واجد ضیا نے بتایا کہ عرفان منگی موجود تھے لیکن انہوں نے کچھ ایسا کہا یہ یاد نہیں۔خواجہ حارث نے سوال کیا کہ کیا آپ کے نوٹس میں یہ ہے کہ نیب کیسز میں پہلے سوالنامہ بھیجا جاتا ہے۔واجد ضیا نے کہا نیب میں کبھی کام نہیں کیا اسی لیے اس سے متعلق کچھ کہہ نہیں سکتا، یہ درست ہے کہ کچھ ممبرز نے کہا تھا کہ کچھ ڈپارٹمنٹس پہلے سوالنامہ بھیجتے ہیں، میٹنگ میں یہ بات ہوئی تھی کہ کچھ ایف آئی اے کیسز میں بھی سوالنامہ بھیجا جاتا ہے۔ فاضل جج نے استفسار کیا کہ قطری کتنے خط لکھتا رہا اور کیا بس خط ہی چھکا چھک آتے جاتے رہے، ہوا کچھ بھی نہیں، نہ جے آئی ٹی والے قطری کے پاس گئے اور نہ وہ ان کے پاس آیا، جب پیش رفت ہی کوئی نہیں ہوئی تو پھر سارا معاملہ ایک جملے میں لکھا جاسکتا ہے۔جج نے کہا کہ صرف لکھ دیں کہ نہ تو قطری پاکستان آیا نہ جے آئی ٹی قطر گئی اس لئے خطوط کی تصدیق نہ ہوسکی۔احتساب عدالت نے سماعت آج تک ملتوی کرتے ہوئے سربراہ جے آئی ٹی واجد ضیا کو دوبارہ طلب کر لیا ۔ عدالت نے ہدایت کی کہ نواز شریف کو بھی آج پیش کیا جائے گا۔