کراچی (رپورٹ:نواز بھٹو) سندھ میں 25 ہزار سے زائد بلدیاتی ملازمین نکالنے سے صفائی کا بحران مزید سنگین ہوگیا۔ محکمہ بلدیات نے متبادل انتظام کئے بغیر نوٹیفکیشن جاری کردیا۔ کراچی سمیت صوبے کے بیشتر علاقوں میں آلائیشیں اٹھانے کا کام تاحال مکمل نہیں ہوا جب کہ محرم الحرام کی آمد آمد ہے، اس صورتحال میں بلدیاتی اداروں کے سربراہان سر پکڑ کر بیٹھ گئے ہیں۔ سیکریٹری بلدیات خالد حیدر شاہ نے بحران کی سنگینی کا اعتراف کرتے ہوئے مؤقف اختیار کیا کہ محکمہ بلدیات واٹرکمیشن کےاحکامات پرعملدرآمد کا پابند ہے تاہم یہ حقیقت ہے کہ بیشتر بھرتیاں سیاسی بنیادوں پر کی گئی تھیں۔ تفصیلات کے مطابق واٹر کمیشن کی ہدایات پرعملدرآمد کرتے ہوئے محکمہ بلدیات نے میئر بلدیہ عظمیٰ کراچی، صوبے کے دیگر تمام میئرز، چیئرمینز، میونسپل کمشنرز، صوبے کے ڈائریکٹر اور ڈپٹی ڈائریکٹر لوکل گورنمنٹ، صوبے کی تمام میونسپل کمیٹیز کے چیئرمینز، چیف میونسپل آفیسرز، صوبے کی تمام ٹاؤن کمیٹیوں کے چیئرمین اور ٹاؤن افسران اور صوبے کی تمام یونین کونسلوں کے چیئرمین اورسیکریٹریز کو جاری کئے گئے لیٹر NO.LG/Dir/PM&EC/AD-II/222 (14-W.C)/2018/3712 کے ذریعے ہدایت کی ہے کہ ان اداروں میں کام کرنے والے تمام ڈیلی ویجز ملازمین کو بلا تاخیر فارغ کر دیا جائے۔ ذرائع کے مطابق فارغ کئے جانے والے ملازمین کی تعداد 25ہزار سے زائد بتائی جا رہی ہے جن میں بیشتر کا تعلق صفائی ستھرائی کے عملے سے ہے۔ اس صورتحال میں کراچی سمیت صوبے کے بیشتر شہروں صفائی کا خطرناک بحران پیدا ہونے کا خدشہ برھ گیا ہے جو پہلے ہی ناقص انتظامات کی باعث گندگی کا ڈھیر بنے ہوئے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ملازمتوں پر عائد مسلسل پابندی کی وجہ سے اس وقت صوبے کے تمام بلدیاتی اداروں میں سب سے زیادہ صفائی کا عملہ اور کلریکل ملازمین ہی بھرتی کئے گئے ہیں۔ لیٹر موصول ہونے کے بعد تمام بلدیاتی ادارے سخت دباؤ کا شکار ہو گئے ہیں اور محرم الحرام اور ربیع الاول کی آمد کے باعث بلدیاتی اداروں کے سربراہ سر پکڑ کر بیٹھ گئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان دنوں میں شہروں میں صفائی کا نظام نہ کیا جا سکا اور گٹر ابل پڑے تو یہ صورتحال کسی بڑے سانحے سے کم نہیں ہو گی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ صفائی کےعملے کی کمی کے باعث صوبے کے کئی شہروں سے عید الاضحی کے بعد سے اس وقت تک آلائشیں نہیں اٹھائی جا سکی ہیں اور کئی شہر گندگی کا ڈھیر بنے ہوئے ہیں، تعفن کے باعث شہریوں کا جینا حرام ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ صوبے کے متعدد شہروں کے گٹر ابل رہے ہیں اور سڑکیں تالاب بنی ہوئی ہیں تاہم ایسی صورتحال کے پیش نظر ہزاروں کی تعداد میں ڈیلی ویجز ملازمین کو نکالے جانے کے باعث صفائی کا تھوڑا بہت کام جو ہوتا تھا وہ بھی آج سے ٹھپ ہو جائے گا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اصولی طور پر ڈیلی ویجز ملازمین کی 16اگست سے ہی ملازمت ختم ہو چکی ہے تاہم بلدیاتی اداروں کے افسران نے بحرانی صورتحال سے خوفزدہ ہو کر انہیں دلاسے دے رہے تھے اور اس لیٹر کو خفیہ رکھا گیا تھا تاہم گزشتہ روز جب واٹر کمیشن کے احکامات پر عملدرآمد سے متعلق اجلاس ہوا، تو ان ملازمین کو بچانے کی آخری امید بھی دم توڑ گئی۔ ذرائع کے مطابق اجلاس کے دوران واٹر کمیشن کے سربراہ جسٹس(ر) امیر ہانی مسلم اورسندھ کے تیسرے بڑے شہر سکھر کے میئر کے درمیان گرماگرمی بھی ہوئی۔ اجلاس میں اس میئر کا کہنا تھا کہ اچانک سے اس طرح کئے جانے سے 25سے 30ہزار خاندان متاثر ہوں گے شہر کچرا کنڈی بند جائیں گے متبادل انتظام کئے جانے تک مہلت دی جائے اور اس فیصلے کو کچھ عرصہ کے لئے مؤخر کیا جائے تاہم چیئرمین واٹر کمیشن نے مہلت دینے سے انکار کرتے ہوئے سیکریٹری بلدیات کو ہدایت کی کہ تمام ڈیلی ویجز ملازمین کو فارغ کرکے آئندہ اجلاس میں اس فیصلے پرعملدرآمد سے متعلق رپورٹ پیش کی جائے۔جب کہ ان کو دی جانے والی تنخواہ کو پینشنرز کی ادائیگیوں، واٹر سپلائی ، سیوریج، فائر برگیڈ اور ضروری مرمتی امور پر خرچ کیا جائے ۔ واضح رہے کہ جرمن کمپنی نساسک کی ناکامی اور حکومت کے کروڑوں روپے ضائع ہو جانے کے بعد صوبے میں صفائی سے متعلق کوئی متبادل نظام موجود نہیں ہے۔ اس معاملے پر گزشتہ روز سیکریٹری بلدیات سے کئی بلدیاتی اداروں کے میئرزاور چیئرمینوں نے رابطے کئے اور محرم الحرام اور ربیع الاول تک مہلت طلب کی جس پر سیکریٹری بلدیات نے معذرت کر لی اور انہیں واٹر کمیشن کے فیصلے پر عملدرآمد کی ہدایت کی ۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ بلدیاتی اداروں کے سربراہوں کا کہنا ہے کہ کوئی متبادل انتظام کئے جانے سے قبل اس فیصلے پرعملدرآمد خطرناک صورتحال کو جنم دے گا۔ ان کا کہنا ہے کہ ہونا تو یوں چاہئے تھا کہ اس فیصلے سے قبل سندھ سالڈ ویسٹ منیجمنٹ بورڈ کا دائرہ دیگر شہروں تک پھیلایا جاتا اس کے بعد اس فیصلے پر عملدرآمد ہوتا تو صورتحال کو سنبھالا جا سکتا تھا اب جو طوفان اٹھے گا اس کو سنبھالنا آسان نہیں ہوگا۔ اس سلسلے میں جب سیکریٹری بلدیات خالد حیدر شاہ سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ وہ عملدرآمد کے پابند ہیں وہ اس فیصلے پر کسی قسم کا کوئی تبصرہ نہیں کر سکتے ۔ انہوں نے کہا وہ جانتے ہیں کہ اس سے بحرانی صورتحال جنم لے سکتی ہے لیکن یہ حقیقت اپنی جگہ پر موجود ہے کہ زیادہ تر بھرتیاں سیاسی بنیادوں پر کی گئی ہیں ۔ اس سلسلے میں رابطہ کرنے پر میئر سکھر بیرسٹر ارسلان اسلام شیخ نے بتا یا کہ سکھر میونسپل اور اس کے ذیلی اداروں میں 940 سے زائد ملازمین اور صفائی کا عملہ ڈیلی ویجز پر کام کر رہا ہے ان کو نکالے جانے کی وجہ سے شہر کی صفائی کے نظام کو سنبھالنا ممکن نہیں ہو گا اور نہ ہی ہمارے سامنے کوئی متبادل ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم واٹر کمیشن کا فیصلہ قبول کرنے کے پابند ہیں لیکن آئندہ چند روز میں جس بحران کو آتا دیکھ رہے ہیں اس کے نتائج سے خوف آ رہا ہے۔