کراچی(رپورٹ :عمران خان) ڈائریکٹو ریٹ آ ف انٹیلی جنس اینڈ انویسٹی گیشن کی جانب سے ٹیکس چوری میں ملوث کمپنیوں کی کھیپ کلیئر کرنے میں ملوث کسٹم کے افسران کے خلاف تحقیقات شروع کردی گئی ہے ۔ابتدائی تحقیقات میں انکشاف ہوا ہے کہ فائنل کلیئرنس ڈپٹی کلکٹر کی آئی ڈی سے دی جاتی ہے ،جس کے بعد تحقیقات کا دائرہ اپریزنگ آفیسرز سے ڈپٹی کلکٹر آفس تک پھیلادیا گیا ہے ،جس کے لئے ڈائریکٹوریٹ جنرل آف انٹیلی جنس اینڈ انویسٹی گیشن کے افسران نے کمپنیوں کی جانب سے منگوائی گئی کھیپ اور ان کی ایگزامننگ کرنے والے افسران کے علاوہ کلیئرنس دینے والوں کا ریکارڈ ماڈل کسٹم کلکٹوریٹ اپریزمنٹ ویسٹ سے حاصل کرناشروع کردیا ہے ،جن کی کمپنیوں کی جانب سے امپورٹ پالیسی کا غلط استعمال کرکے ٹیکس چوری کی گئی ۔ان میں فاطمہ ٹریڈرز،ایم اے ایمپیکس ،توحید برادرزاور سنکو اسٹیل شامل ہیں، جنہوں نے جنوبی کوریا اور دبئی سے منگوائے جانے والی مشینری ،الیکٹرونک کے ساما ن اور ان کے پرزوں کی کھیپوں میں بڑے پیمانے پر ٹیکس چوری کرنے کے لئے اصل وزن ،مالیت ،قیمت کو ظاہر کرنے والی دستاویزات میں ردو بدل کیا اور اس کے لئے امپورٹ پالیسی کا غلط استعمال کیا گیا۔ذرائع کے بقول کے ڈائریکٹوریٹ جنرل آف انٹیلی جنس اینڈ انویسٹی گیشن کی ٹیم نے گزشتہ روز اپریزمنٹ ویسٹ کے ٹرمینل پر چھاپہ مار کر مذکورہ چاروں کمپنیوں کی جانب سے منگوائے گئے سامان کے کنٹینرز کی از سر جانچ پڑتال کے بعد ٹیکس چوری کا انکشاف کرتے ہوئے مقدمات قائم کئے ہیں ۔ان مقدمات میں ابتدائی طور پر کمپنیوں کے مالکان اور انتظامیہ کے افراد کے علاوہ کسٹم کے اپریزنگ آفیسر کو نامزد کر کے مزید تحقیقات شروع کی گئیں ۔ذرائع کے بقول مقدمات درج کئے جانے کے بعد ٹرمینل انتظامیہ کو بھی تحقیقات میں شامل کرلیا گئی ہے ،کیونکہ جس وقت ٹیکس چوری اور جعلسازی کی اطلاع پر کسٹم ڈی آئی ٹی کی ٹیم نے موقع پر پہنچ کر ان کمپنیوں کے سامان سے بھرے کنٹینرز کی انسپکشن کا عمل شروع کرنا چاہا تو ٹرمینل پر موجود اہلکاروں کی جانب سے سخت مزاحمت کی گئی ،جو کہ ایک غیر معمولی عمل تھا اور بظاہر اس کی نہ تو کوئی وجہ تھی اور نہ ہی ٹرمینل انتظامیہ کے افراد کو ایسی مزاحمت کی قانونی طور پر اجازت ہے ،کیونکہ کسٹم انٹیلی جنس کے افسران کو اختیار حاصل ہے کہ وہ کسی بھی قسم کی جعلسازی ،ٹیکس چوری ،اسمگلنگ یا کرپشن کی اطلاع پر کسٹم کے کسی بھی شعبہ میں جاکر کارروائی کرسکتے ہیں ،جبکہ ٹرمینل انتظامیہ اور ان کا کسٹم سے کوئی تعلق نہیں ہوتا اور وہ پرائیویٹ کمپنیوں کے ملازم ہوتے ہیں ،اسی لئے مزاحمت کرنے والوں کے خلاف کار سرکار میں مداخلت اور ٹیکس چوری میں معاونت فراہم کرنے کی دفعات کے تحت کارروائی کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ذرائع کے بقول یہ معاملہ اس وقت سامنے آیا ،جب گزشتہ تین دن پہلے کسٹم انٹیلی جنس کو خفیہ ذرائع سے اطلاع موصول ہوئی کہ ماڈل کسٹم کلکٹوریٹ اپریزمنٹ ویسٹ سے کئی کمپنیاں امپورٹ پالیسی کا غلط استعمال کرکے بھاری ٹیکس چوری کر رہی ہیں ،جس کے بعد کسٹم انٹیلی جنس کے حکام کی جانب سے اس اطلاع پر کام شروع کیا گیا تو معلوم ہوا کہ ان کمپنیوں کی کھیپ کو ٹرمینل سے کلیئرنس دے دی گئی ہے اور جلد ہی یہ سامان کمپنیوں کے گوداموں میں پہنچ جائے گا ،جس کے بعد آن لائن سسٹم کے ذریعے ان کمپنیوں کی کلیئرنس بلاک کردی گئی اور کسٹم انٹیلی جنس کی ٹیم ری ایگزامنیشن کے لئے ٹرمینل پہنچ گئی ۔اس جانچ پڑتال کے دوران انکشاف ہوا کہ فاطمہ ٹریڈرز،ایم اے ایمپیکس ،توحید برادرزاور سنکو اسٹیل کی جانب سے کوریا اور دبئی سے منگوائے گئے تقریباً ڈھائی کروڑ روپے کے سامان پر جعلسازی سے کسٹم ڈیوٹی اور ٹیکس چوری کرکے قومی خزانے کو نقصان پہنچایا جا رہا تھا ،جس کے بعد ان کمپنیوں کے سامان کی منتقلی روکنے کے لئے ان کے گیٹ پاس بھی بلاک کئے گئے ،تاہم حیرت انگیز طور پر یہاں کسٹم انٹیلی جنس ٹیم کو مزاحمت کا سامنا کرنا پڑ ا، جبکہ ایم سی سی اپریزمنٹ ویسٹ کے کسٹم افسران کی جانب سے بھی کسی قسم کا تعاون نہیں کیا گیا جس کے بعد ابتدائی تحقیقات میں انکشاف ہوا کہ مذکورہ کمپنیوں کے سامان کو کلیئر قرار دینے کے لئے کسٹم کے اپریزنگ آفیسر محمد حمال نے ایگزامننگ کی تھی جس کے بعد اسے کلیئرنس مل گئی تھی ابتدائی تحقیقات کے بعد چاروں کمپنیوں کے خلاف درج مقدمات میں اس آفیسر کو بھی نامز د کرکے اس کے خلاف تحقیقات شروع کی گئیں ذرائع کے بقول موقع پر جانے والی ٹیم اور رپورٹ تیار کرنے والی ٹیم کے بعض افسرا ن نے ٹیکس چوری کی اس واردات میں اپریزمنٹ ویسٹ کے ملوث دیگر افسران کو بچانے کے لئے سارا نزلہ ایک ایسے افسر پر گرادیا جو کہ محکمہ کسٹم میں بطور اپریزنگ آفیسر نیا بھرتا ہوا ہے تاہم یہ ٹیکس چوری جس انداز میں کی جا رہی تھی۔اس میں کمپنیو ں کو بعض پرانے اور سینئر افسران کی معاونت حاصل ہوئے بغیر یہ کام ہر گز نہیں کیا جاسکتا تھا،امت کو ایک سینئر ایگزامننگ آفیسر کی جانب سے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا گیا ہے کہ ایسے معاملات میں ابتدائی طور پر اپریزنگ افسران جو کہ ایگزامنر کی حیثیت سے کھیپ کی جانچ پڑتال کرکے آتے ہیں انہیں آئی ڈی اور پاسپورڈ سے کھیپ کی کلیئرنس کے پروسس کو آگے بڑھایا جاتا ہے تاہم حتمی کلیئرنس ڈپٹی کلکٹر یا اسسٹنٹ کلکٹر کی آئی ڈی پاسپورڈ سے ہی دی جاتی ہے جس کے بعد تحقیقات میں اگر اے سی ،ڈی سی سطح کے افسران کو شامل نہ کیا جائے تو تحقیقات کبھی شفاف نہیں ہوسکتیں اور اصل حقائق اور نیٹ ورک کبھی سامنے نہیں آسکتے۔ ذرائع کے بقول کسٹم انٹیلی جنس کے اعلیٰ حکام کے پاس رپورٹ جانے کے بعد یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ تحقیقات کا دائرہ ڈپٹی کلکٹر آفس اور دیگر افسران تک پھیلایا جائے کیوں یہ اسکینڈل صرف چار کمپنیوں تک محدود نہیں ہے بلکہ کئی برسوں سے اس انداز میں ٹیکس چوری کی وارداتیں کرکے قومی خزانے کو کسٹم ڈیوٹی اور ٹیکس کی مد میں کروڑوں روپے کا نقصان پہنچایا جاچکا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ حالیہ واردات میں سامنے آنے والی کمپنیوں فاطمہ ٹریڈرز،ایم اے ایمپیکس ،توحید برادرزاور سنکو اسٹیل کی جانب سے ماضی میں منگوائی اور کلیئر کروائی جانے والی تمام کھیپوں کا ریکارڈ بھی جمع کیا جا رہا ہے ،ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ گزشتہ مہینوں میں ماڈل کسٹم کلکٹوریٹ اپریزمنٹ پورٹ قاسم ،اپریزمنٹ ویسٹ اور اپریزمنٹ ایسٹ سے گرین چینل اور ٹی پی پرمٹ کے ذریعے کلیئر ہونے والے سامان پر سینکڑوں کمپنیوں کی جانب سے اربوں روپے کا ٹیکس اور ڈیوٹی چوری کیا گیا اور ان واقعات کی اطلاعات پر سپریم کورٹ کی جانب سے بھی ایف بی آر حکام سے رپورٹ طلب کی گئی جس کے بعد ٹیکس چوری میں ملوث ریکٹ کی جانب سے نئے ہتھکنڈے استعمال کئے جانے لگے جن میں امپورٹ پالیسی کے غلط استعمال کا ذریعہ بھی شامل ہے اور ان تینوں ہی راستوں سے اس وقت تک ٹیکس چوری اور جعلسازی کمپنیوں اور ان کے کلیئر ایجنٹوں کے لئے اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک انہیں متعلقہ کسٹم افسران کی جانب سے تعاون حاصل نہ ہوسکے ۔