کراچی(اسٹاف رپورٹر)زخمی محمد حارث کے والد، رشتہ داروں اور پڑوسیوں کی معاونت سے ایک ماہ سے اسپتال میں داخل اپنے بچے کی تیمار داری میں مصروف ہیں، جب کہ کمانے والا دوسرا کوئی نہیں۔پیسے نہ ہونے کے باعث متاثرہ خاندان فاقوں پر مجبور ہوگیا۔ایک ماہ گزر جانے کے باوجود کے الیکٹرک انتظامیہ کی جانب سے رابطہ نہیں کیا گیا۔اہلخانہ کی جانب سے رابطہ کرنے پر کے الیکٹرک کے افسر نے انہیں دھکے مار کر نکال دیا۔تفصیلات کے مطابق سرجانی ٹاؤن سیکٹر سیون ڈی کے رہائشی اور کے الیکٹرک کی غفلت کا شکار بننے والا 11 سالہ محمد حارث بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹا اور گھر والوں کا لاڈلا ہے، جس کی جلد صحت یابی کے لئے اہلخانہ نے مساجد اور گھروں میں دعائیں کرانا شروع کردی ہیں۔اس حوالے سے محمد حارث کی والدہ نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ میرے سب سے بڑے بیٹے کا نام ذیشان ہے جو 22سال کا ہے۔فیضان 17سالہ ہے، اس کے بعد میری بیٹیاں ہیں اور حارث سب سے چھوٹا ہے۔انہوں نے بتایا کہ حارث مدرسے گیا تھا۔والدہ نے بتایا کہ مدرسہ انتظامیہ نے ہمیں گھر پر اطلاع دی کہ حارث مدرسے کی چھت سے گر گیا ہے جس کو عباسی اسپتال لے کر گئے ہیں۔والدہ نے بتایا کہ اطلاع پر ہم دونوں میاں بیوی عباسی اسپتال پہنچے۔ انہوں نے بتایا کہ اسپتال انتظامیہ نے کہا کہ آپ کے بیٹے کو کرنٹ لگا ہے، جس کی وجہ سے وہ بہت زیادہ زخمی ہوگیا ہے۔ آپ اس کو فوری سول اسپتال لے جائیں۔ انہوں نے بتایا کہ سول اسپتال پہنچنے پر ڈاکٹروں نے بتایا کہ آپ کے بیٹے کے دونوں ہاتھ خراب ہوگئے ہیں، جس کی وجہ سے اب اس کے ہاتھ کبھی ٹھیک نہیں ہوسکتے۔والدہ نے بتایا کہ مدرسہ انتظامیہ سے اس حوالے سے بات کی تو انہوں نے کہا کہ حارث چھت پر کھیلتے کھیلتے ہائی ٹینشن وائر پر گرگیا۔انہوں نے بتایا کہ ایک ماہ گزرجانے کے باوجود ہم سے کسی نے رابطہ نہیں کیا۔میرے بیٹے کی معذوری کی ذمہ دار کے الیکٹرک ہے، جس کے خلاف فوری کارروائی کی جائے۔محمد عبدالقیوم نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ وہ دن بھر رکشہ چلاکر جو پیسے جمع ہوتے ہیں۔ان سے گھر کا راشن خریدتا ہے ۔بچے نجی اور سرکاری اسکولوں میں تعلیم حاصل کررہے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ وہ سواری لے کر جارہے تھے کہ ان کی اہلیہ نے فون کرکے واقعہ کی اطلاع دی۔25جولائی کو میرا بیٹا چھت سے گر کر ہائی ٹینشن وائر سے ٹکرایا، جس کی وجہ سے اس کے دونوں ہاتھ زخمی ہوکر مکمل طور پر ناکارہ ہوچکے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ ایک ماہ سے اسپتال میں ہوں۔رکشہ نہ چلانے کی وجہ سے گھر والے فاقہ کشی پر مجبور ہوگئے ہیں۔پڑوس کے لوگ ہماری مدد کررہے ہیں، لیکن کے الیکٹرک حکام نے ہم سے ابھی تک کوئی رابطہ نہیں کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ ہم نے کے الیکٹرک سے رابطہ کیا تھا، مگر ان کے ایک افسر نے ہمیں یہ کہہ کر نکال دیا کہ ہم مدرسے کی چھت سے گرنے والوں کی کوئی مدد نہیں کرتے ۔ انہوں نے حکومت سندھ سے مطالبہ کیا کہ کے الیکٹرک کے خلاف فوری کارروائی عمل میں لائی جائے تاکہ آج کے بعد کسی کا بچہ معذور نہ ہو۔