سندھ یونیورسٹی تحقیقاتی کمیٹی کو ریکارڈ دینے سے گریزاں

کراچی (اسٹاف رپورٹر) ہائیر ایجوکیشن سندھ کی خصوصی انسپیکشن کمیٹی نے سندھ یونیورسٹی میں بدعنوانیوں، گاڑیوں کی خریداری اور فنڈز بے ضابطگیوں سے متعلق جانچ پڑتال شروع کردی۔ جامعہ انتظامیہ کمیٹی کو ریکارڈ فراہم کرنے سے گریز کر رہی ہے۔ مہران یونیورسٹی کے ریزیڈنٹ آڈیٹر نے شیخ الجامعہ کو خط لکھ دیا۔ تفصیلات کے مطابق سندھ یونیورسٹی میں مالی و انتظامی بدعنوانیوں، فنڈز کی جانچ پڑتال کرنے کیلئے سندھ ہائیر ایجوکیشن کمیشن کی چارٹر انسپیکشن اینڈ ای ویلیوایشن کمیٹی کو ٹاسک دیا گیا ہے، جس کے چیئرمین پروفیسر ڈاکٹر عبدالقدیر راجپوت نے 6اگست کو شیخ الجامعہ فتح محمد برفت سے ان ہی کے دفتر میں استفسار کیا کہ مالی و انتظامی معاملات کس طرح چلائے جا رہے ہیں۔ فنڈز کے استعمال اور پابندی کے باوجود کس قانون کے تحت گاڑی خریدی گئی۔ پی او ایل کے استعمال اور کنونشن سینٹر کے پی سی ون سمیت دیگر سوالات پوچھے گئے، جس کا جواب دینے کیلئے شیخ الجامعہ نے ایک ہفتے کی مہلت تو مانگی، تاہم انہوں نے تاحال کمیٹی کو جواب جمع نہیں کرایا ہے۔ ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ اس حوالے سے مہران یونیورسٹی کے ریزیڈنٹ آڈیٹر اشرف ابڑو نے بھی شیخ الجامعہ کو خط لکھ دیا ہے، خط نمبر MUET/RA/55میں چیئرمین انسپیکشن کمیٹی کی پوچھ گچھ کا حوالہ دیتے ہوئے 30اگست تک ریکارڈ فراہم کرنے کی ڈیڈ لائن دی، تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ یونیورسٹی انتظامیہ ریکارڈ فراہم کرنے سے گریز کر رہی ہے اور سیاسی رسوخ استعمال کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ وائس چانسلر سندھ یونیورسٹی نے جامعہ کا 78کروڑ سے زائد مالی خسارہ ہونے کے باوجود وفاقی فنانس ڈویژن اور گاڑیوں کی خریداری پر پابندی کو نظر انداز کرتے ہوئے 62 لاکھ روپے کی ٹیوٹا فارچیونر خرید ڈالی تھی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ انتظامیہ کی جانب سے جامعہ کے خزانے سے20کروڑ سڑکوں کی تعمیر پر لگانے، 150سے زائد گزشتہ ایک سال میں بھرتیاں کرنے، جامعہ کی گاڑیوں کا ذاتی استعمال کرنے، کنونشن سینٹر کی ناقص تعمیرات اور انڈوومنٹ فنڈ کے غلط استعمال سمیت دیگر مالی و انتظامی بدعنوانیوں کی شکایت صوبائی حکومت کو کی گئی تھی۔ اس حوالے سے شیخ الجامعہ فتح محمد برفت کا کہنا تھا کہ سی آئی سی کمیٹی مستقل وزیر اعلیٰ سے اجازت لیکر جو بھی تحقیقات کرنا چاہتی ہے، کر سکتی ہے۔ البتہ نگراں حکومت کے تحت کسی کو ریکارڈ فراہم نہیں کیا جا سکتا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ مہران یونیورسٹی کے ریزیڈنٹ آڈیٹر نے کس قانون کے تحت ریکارڈ مانگنے کیلئے وائس چانسلر سندھ یونیورسٹی کو خط لکھا، وہ اس حوالے سے ضرور پوچھیں گے۔

Comments (0)
Add Comment