بلند تعمیرات پر بحریہ ٹاون کو توہین عدالت کا انتباہ

کراچی( اسٹاف رپورٹر)سپریم کورٹ کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی لارجر بنچ نے بلند تعمیرات پر بحریہ ٹاؤن کی انتظامیہ کو توہین عدالت کا انتباہ دیتے ہوئے 6 منزلہ سے زائد بلندعمارتیں کھڑی کرنے پر جواب مانگ لیا اور اپنے ریمارکس میں کہا ہے کہ بحریہ ٹاؤن کی مشینری جہاں ہے جیسے ہے کی بنیاد پر روک دی جائے۔حکم کی خلاف ورزی ہوئی توبحریہ ٹاؤن کی انتظامیہ بلکہ چیئرمین اور چیف ایگزیکٹوآفیسرکوذمہ دار سمجھتے ہوئے ان کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔ہفتہ کے روز کراچی رجسٹری میں سماعت کے دوران آباد (ایسوسی ایشن آف بلڈرزاینڈ ڈیولپرز) کی جانب سے فیصل صدیقی ایڈووکیٹ پیش ہوئے ،جنہوں نے حکومت سندھ ،چیف سیکریٹری سندھ، ڈائریکٹر ایم ڈی اے ،ڈائریکٹرجنرل سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی و دیگر کو فریق بناتے ہوئے مؤقف اختیارکیاکہ سپریم کورٹ نے 6منزلہ سے زائد عمارتوں کی تعمیرات پر پابندی عائد کی تھی تاہم بحریہ ٹاؤن اس فیصلے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بلندعمارتیں تعمیرات کررہاہے لہذا عدالت عظمیٰ سے استدعاہےکہ بحریہ ٹاؤن کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی عمل میں لائی جائے۔ فاضل بنچ نے آئل ٹینکرز کی ذوالفقار آباد منتقلی اور ٹرمینل پر درپیش مسائل سے متعلقہ حکام سے رپورٹ طلب کرلی اورکہا ہے کہ ٹرمینل میں جو جو کمی رہ گئی ہیں اسے پورا کیا جائے۔ سماعت کے دوران کمشنر کراچی نے عدالت کو آگاہ کیا کہ لوڈ مینجمنٹ اور بھرتیوں کا سسٹم نہیں ہے اس لئے مسائل درپیش ہیں۔ پی ایس او سمیت 60 کمپنیوںکو دفاتر کھولنے کا کہا ہے۔ جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ اس کا مطلب ہے سپریم کورٹ کمزور ہوگیا ہے اور وہ اپنے ہی حکم پر عمل درآمد نہیں کرا پارہا۔فراہمی ونکاسی آب کیس کی سماعت کے دوران 3 رکنی لارجر بنچ نے واٹرکمیشن کی کارکردگی کو سراہاتے ہوئے آبزرویشن میں کہا کہ پانی کے منصوبوں پر نتائج آرہے ہیں اور حالات میں بہتری آئی ہے ، تسلسل کو جاری رکھتے ہوئے نومبر میں مزید پروگریس رپورٹ جمع کرائی جائے۔ چیف جسٹس نے مئیر کراچی سے استفسار کیا کہ کراچی کےنالوں پرتجاوزات کے حوالے سے بتائیں قبضہ ختم ہوا کہ نہیں ہوا۔ وسیم اختر نے جواب دیا کہ مکمل خاتمہ نہیں ہوا،کارروائیاں جاری ہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ غیرقانونی تعمیرات مکمل ختم کرائی جائیں۔خلاف ورزی پر میئر بھی ذمہ دار ہوں گے۔نوابشاہ میں حفاظتی ٹیکوں سے چار بچوں کی ہلاکت سے متعلق کیس میں چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ڈاکٹرز کی غفلت ثابت ہوچکی ہے اب کیا طریقہ کار ہے ۔ان لوگوں کو کیا پچیس پچیس لاکھ روپے ادا کرنے کا آردڑ کردوں۔ دہشت گردی میں مارے جانے والوں کے لیے کتنا معاوضہ ہے۔ جس پر سیکریٹری صحت سندھ نے بتایا کہ کہ پانچ لاکھ روپے معاوضہ ہے ۔ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ اس حوالے سے لائحہ عمل کے لئے مہلت دی جائے ۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ وزیر صحت اور سیکریٹری صحت متاثرہ بچوں کے والدین سے ملاقات کریں اور مسئلے کا حل نکالا جائے ۔اس حوالے سے میٹنگ کرکے ایک ہفتے میں رپورٹ پیش کی جائے۔چیف جسٹس نے لاپتہ افراد سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران عدالت کے باہر احتجاج کرنے والے اہل خانہ کو طلب کرلیا اوریقین دہانی کرائی کہ لاپتہ افراد کے نام مسنگ پرسنز کمیشن کو بھجوادیئے ہیں۔ بہت جلد آپ کےپیاروں کو بازیاب کرائیں گے۔ایک خاتون چیف جسٹس کو یہ بتاتے ہوئے آبدیدہ ہوگئی کہ اس کاشوہرکئی برس سے لاپتہ ہے۔معطلی، ترقی اور دیگر مسئلوں پر سماعت کےدوران ایک خاتون ٹیچر نے مؤقف اختیار کیا کہ میں 15 دن کی چھٹیوں پر تھی مجھے بغیر بتائے معطل کردیا، چیف جسٹس نے کہا کہ آپ بغیر بتائے چھٹیاں کریگی تو افسران ایکشن تولیں گے۔چیف جسٹس نے گھروں پر قبضہ سے متعلق درخواستوں پر متعلقہ اداروں کو ارسال کردیا اور حکم دیا کہ پراپرٹی سے قبضہ ختم کرائیں۔ جب کہ پنشن نے ملنے کی درخواستوں پر متعلقہ اداروں سے جواب طلب کرلیا۔عدالت نے یاسمین لاری کی درخواست پر محکمہ آثار قدیمہ کو تاریخی عمارتوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کی ہدایت کردی ۔

Comments (0)
Add Comment