معذور بچے عمر کے والد کے الیکٹرک کے سامنے ڈٹ گئے

کراچی(رپورٹ:سیدنبیل اختر)کرنٹ لگنے سے معذور عمر کا معاملہ نمٹانے کے لئے کے الیکٹرک سرگرم ہو گئی۔والد سے فون کر کے ملنے کی خواہش ظاہر کی۔محمد عارف نے ملاقات مطالبات کی منظوری سے مشروط کردی۔کے الیکٹرک اعلی تعلیم کے تمام اخراجات برداشت کر کے ملازمت کی گارنٹی دے یا کوئی فنڈ مختص کرے یا مصنوعی ہاتھ لگوانے کا انتظام کرے۔ٹیلی فون گفتگو میں مطالبات رکھ دیئے۔تفصیلات کے مطابق جمعہ اور ہفتہ کی درمیانی شب احسن آباد اور متصل علاقوں کے مکینوں نے سپرہائی وے بند کر کے احتجاج کیااور کرنٹ لگنے سے معذور ہونے والے بچوں کے حق میں نعرے بازی کی۔مذکورہ احتجاج بجلی کی بحالی پر ختم ہوالیکن شہریوں نے عمر اور حارث کو انصاف نہ ملنے پر دوبارہ سڑک بند کرنے کی دھمکی بھی دے ڈالی،7ملازمین کی گرفتاری اور ہائی وے پر ہونے والے احتجاج نے کے الیکٹرک ہیڈآفس میں ہلچل مچائی۔معلوم ہوا کہ کے الیکٹرک نے محمدعمر کے معاملے پراپنے ہی افسران پر مشتمل کمیٹی بنادی ہے جو جلد ازجلد معاملہ نمٹانے کے لئے اقدامات کرے گی۔’’امت‘‘ نے مذکورہ معاملے پر محمد عمر کے والد محمد عارف سے بات کی انہوں نے بتایا کہ کے الیکٹرک سے فون آیا ہے اور فون کی دوسری طرف موجودشخص نے خود کو کمیٹی کا ذمہ دار بتایا اور ملاقات کی خواہش ظاہر کی۔عمر کے والد نے بتایا کہ انہوں نے ٹیلی فون پر ہی اپنے مطالبات رکھ دیئے ہیں اور ملاقات ان مطالبات کی منظوری سے مشروط کردی ہے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ کے الیکٹرک میڈیا پر معاملہ سامنے آنے پر جھکی ہے،میڈیا نے ساتھ دیا تو عمر کے مستقبل کو محفوظ بنائیں گے۔انہوں نے کہا کہ کے الیکٹرک کے سامنے اعلیٰ تعلیم تک تمام اخراجات،ملازمت کی ضمانت یا کوئی فنڈ مختص کرنے اور مصنوعی ہاتھ لگوانے ارو وقتا فوقتا اس کی تبدیلی کا مطالبہ کیا ۔عارف نے بتایا کے عمر کی حالت خطرے سے باہر نہیں،ڈاکٹر علی نے بتایا کہ اس کے ہاتھ کچھ شریانیں بند نہیں کی گئی ہیں۔15دنوں تک مستقل جائزہ لیا جاتا رہے گا کہ کیا مزید ہاتھ کاٹنا پڑے گا یا نہیں ،کے الیکٹرک میرے بیٹے کی اس حالت کی ذمہ دار ہے اور انہیں اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔عارف نے بتایا کہ کے الیکٹرک مطابات کی منظوری دے تو ان سے ملاقات میں اپنے بیٹے کے مستقبل کی ضمانت حاصل کروں گا۔ انہوں نے کہا کہ کے الیکٹرک کے لئے عمر اب لائبلیٹی ہے۔اس کی فروخت ہو یا کوئی بھی اسے خریدے عمرکے لئے معاہدے کی تکمیل اس کی ذمہ داری ہوگی۔انہوں نے کہا کہ صارم برنی سے رابطہ ہے اور انہیں ضمانتی کے طور پر پیش کریں گے یا کسی این جی او کو کے الیکٹرک یا میرے درمیان ہوئے معاہدے میں ضامن بنائیں گے۔دوسری جانب معلوم ہوا کہ سرجانی کے رہائشی حارث کے والدین سے اب تک کے الیکٹرک نے کوئی رابطہ نہیں کیا ہے۔حارث کے والد عبدالقیوم نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ کے الیکٹرک کی طرف سے حارث کے لئے اب تک کوئی رابطہ نہیں کیا گیا ہے جس پر تشویش ہے،انہوں نے کہا کہ میرے معصوم بچے کے دونوں ہاتھ ضائع ہو گئے ہیں اور کے الیکٹرک بے حس بنی ہوئی ہے ہم غریب ضرور ہیں لیکن اپنے بیٹے کو انصاف دلانے کے لئے میڈیا کی مدد سے ہر دروازہ کھٹکھٹائیں گے انہوں نے بتایا کہ بعض وکلاءنے بھی حارث کے لئے کے الیکٹرک کے خلاف کیس کرنے کی حامی بھری ہے اور انصاف دلانے کی یقین دہائی کرائی ہے، حارث کے لئے ہاتھ کی تصویریں میڈیا پر گردش کررہی ہیں لیکن کے الیکٹرک انتظامیہ اس کی یہ حالت کی ذمہ دارہونے کے باوجود کوئی رابطہ نہیں کررہا۔’’امت‘‘ کو کے الیکٹرک نے محض محمد عمر کے حوالے سے اپنا مؤقف دیا جس میں کہا گیا کہ احسن آباد میں ہونے والے افسوسناک واقع کو سنجیدگی سے دیکھ رہے ہیں اور محمد عمر کے علاج و معالجے میں تعاون فراہم کرنے کیلئے متاثرہ فیملی سے رابطے میں ہیں۔ متاثرہ خاندان کی طرف سے معاملے پر قانونی چارہ جوئی میں بھی ذمہ دار ادارہ ہونے کی حیثیت سے کے الیکٹرک کی جانب سے تفتیشی عمل میں مکمل تعاون کیا جائے گا۔اب تک کی ابتدائی تحقیقات کے مطابق اس علاقے سے منسلک دوسرے مقام پر کنڈوں کے نتیجے میں یہ واقع پیش آیا جس میں کچھ منفی عناصر کی جانب سے غیر قانونی انفرااسٹرکچر کے ذریعے بجلی استعمال کی جارہی تھی اور یہ معصوم بچہ زخمی ہوا۔ ادارے کی طرف سے کئی بار اس غیر قانونی نیٹ ورک کو ختم کیا گیا اور ریگولیٹری کارروائی بھی شروع کی گئی۔ کے الیکٹرک ایسے غیر قانونی نیٹ ورکس، بے ہنگم تجاوزات اور کنڈا عناصر کیخلاف حکومت کا بھر پور تعاون اورقوانین کا سخت نفاذ چاہتا ہے تاکہ انسانی جانوں کے تحفظ کو یقینی بنایا جا سکے۔ادارے کی طرف سے ایک بار پھر تمام تفتیشی عمل میں تعاون کی یقین دہانی کرائی جاتی ہے۔ گڈاپ کے علاقے میں کے الیکٹرک کی ٹیمز کو ہراساں کیا جارہا ہے جس کے باعث علاقے میں فالٹس کی درستگی میں مشکلات کا سامنا ہے۔ تمام متعلقہ حکام سے اس علاقے میں آپریشنز برقرار رکھنے کیلئے معاونت کی درخواست کی جاتی ہے۔

Comments (0)
Add Comment