لاہور/اسلام آباد(نمائندہ خصوصی/مانیٹرنگ ڈیسک) صدارتی الیکشن کی تاریخ قریب آتے ہی اپوزیشن امیدواروں میں دستبرداری کیلئے کشمکش تیز ہوگئی۔اعتزاز احسن اور مولانا فضل الرحمن میں سے کسی ایک کو مشترکہ امیدوار لانے کیلئے اپوزیشن جماعتوں کےدرمیان رابطے ہوئے ہیں تاہم رات گئے تک ملنے والی اطلاعات کے مطابق پی پی اپنے موقف میں لچک پیدا کرنے پر آمادہ نہیں تھی۔ لاہور میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے قمر زمان کائرہ اور خورشید شاہ نے واضح طور پر کہا کہ اپوزیشن کا کوئی اتحاد نہیں ہے ہم صرف دھاندلی کے معاملے پر اکٹھے تھے اس صورتحال کے نتیجے میں تحریک انصاف کے امیدوار عارف علوی کو واک اوور ملنا اور صدر منتخب ہونا یقینی نظر آرہا ہے۔ دوسری جانب ذرائع کا یہ بھی دعوی ہے کہ تحریک انصاف کو ٹف ٹائم دینے کیلئے مولانا فضل الرحمن اعتزاز کی حمایت میں بیٹھ سکتے ہیں تاہم اس ضمن میں حتمی فیصلہ نواز شریف کریں گے۔ نواز لیگ کے مؤقف میں نرمی کی صورت میں چوہدری اعتزاز احسن آج عدالت میں پیشی کے موقع پر سابق وزیراعظم سے ووٹ مانگنے جا سکتے ہیں۔ واضح رہے کہ ن لیگ کے تاحیات قائد نے پارٹی رہنماؤں کو پچھلے ہفتے میں یہ واضح پیغام دے دیا تھا کہ اب مسلم لیگ نواز کے صدارتی امیدوار مولانا فضل الرحمان میں ہوں گے۔ ان کی عدم موجودگی میں مسلم لیگ (ن) اسی طرح ”آبسٹین“ کی پالیسی اختیار کرے گی جیسا کہ پی پی نے وزارت عظمیٰ کے لئے عمران خان کے حق میں کی تھی۔ ذرائع کا دعویٰ ہے کہ مولانا فضل الرحمان نے خود بطور صدارتی امیدوار ریٹائر ہونے کا عندیہ سابق صدر آصف زرداری کی طرف سے درخواست کئے جانے پر کیا ہے۔ انہوں نے شریک چئیرمین کے ساتھ اصولی اتفاق کے بعد اتوار کے روز لاہور پہنچ کر شہباز شریف سے ملاقات کی جس میں ن لیگ کے دیگر رہنما بھی شریک تھے۔ذرائع کے مطابق مولانا فضل الرحمان کے علاوہ محمود خان اچکزئی اور حاصل بزنجو بھی چاہتے ہیں کہ مسلم لیگ نواز ہر صورت میں صدارتی انتخاب میں اپنے ووٹوں کا استعمال کرے۔ خواہ پی پی پی کے امیدوار چوہدری اعتزاز احسن کو بھی کیوں نہ ووٹ دینا پڑے۔لیگی ذرائع کا دعویٰ ہے کہ نئے منظر نامے میں برے دشمن کو شکست دینے کے لئے اس امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا کہ مسلم لیگ، مولانا فضل الرحمان کی اس اپروچ کو اختیار کرے۔ ان ذرائع کے مطابق ایسا لگ رہا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے پیپلز پارٹی کو صدارت دینے کی منظوری دے دی ہے۔ پی پی کے چوہدری اعتزاز احسن کے صدر بننے کی صورت میں مسلم لیگ نواز کے لئے چیئرمین سینیٹ کی نشست بھی خالی ہو سکتی ہے۔ ان ذرائع کے مطابق مولانا فضل الرحمان جنہیں اپنا حتمی صدارتی امیدوار میاں نواز شریف نے قرار دیا تھا، اب اگر اس میں کوئی تبدیلی آتی ہے تو اس کا حتمی فیصلہ بھی آج میاں نواز شریف ہی کریں گے۔ تاہم اس سلسلے میں مسلم لیگ کی اتحادی جماعتوں کی آراء کو بھی میاں نواز شریف کلی طور پر نظر انداز نہیں کر سکیں گے۔دریں اثنا لاہور میں اعتزاز احسن کے ہمراہ پریس کانفرنس کے دوران قمر زمان کائرہ کا مزید کہنا تھا کہ ہم اپنے صدارتی امیدوار کے لیے ووٹ مانگنے نواز شریف کے پاس جیل جانے کو بھی تیار تھے لیکن سیاسی سفر میں معافیاں نہیں مانگی جاتیں اگر معافی مانگنے کی روایت چلی تو پیپلز پارٹی سے ہر جماعت کو معافی مانگنی پڑے گی۔انہوںنے دعوی کیا کہ اعتزاز احسن ہر دور کے آمر کے خلاف لڑے ہیں، ان کے صدر بننے سے اس عہدے کو چار چاند لگ جائیں گے۔ کوشش ہے کہ مولانا فضل الرحمان ہماری بات مان لیں اور وہ بات مان گئے تو ہم الیکشن جیت لیں گے۔ دوسری جانب نواز لیگ کے امیدوار مولانا فضل الرحمن کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی، آصف زرداری اور اعتزاز احسن سے اچھے دوستانہ تعلقات ہیں، دستبردار ہونے کے لیے مجھے ایم ایم اے کی 5 جماعتوں اور اے پی سی کی 5 جماعتوں کو اعتماد میں لینا ہے جب کہ پیپلز پارٹی اپنے امیدوار کو دستبردار کرنے کے لیے اپنے فورم پر فیصلہ کر سکتی ہے۔لاہور میں ن لیگی رہنماؤں کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے ایم ایم اے صدر نے شکوہ کیا کہ ڈنڈے کھانے، قربانیاں دینے اور جیلیں کاٹنے کے لیے ہم قابل قبول ہو سکتے ہیں تو صدارتی الیکشن کے لیے کیوں قابل قبول نہیں۔ پی پی نے وزیراعظم کے الیکشن کے لیے بھی اپنے 53 ووٹ خاموش کرا کر عمران خان کو وزیراعظم بننے کا موقع فراہم کیا۔اس موقع پر بات کرتے ہوئے خواجہ سعد رفیق کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی اور آصف زرداری کے لیے یہ لمحہ فکریہ ہے۔اگر وہ واقعی چاہتے ہیں کہ اپوزیشن متحد ہو تو پھر انہیں تقسیم کا کام نہیں کرنا چاہیے۔حمزہ شہباز نے کہا کہ ن لیگ اور دیگر اپوزیشن جماعتوں نے صدارتی الیکشن کے لیے متفقہ طور پر مولانا فضل الرحمان کو امیدوار چنا ہے۔انہوں نے کہا کہ اپوزیشن کی جو پارٹیاں راضی نہیں انہیں بھی راضی کرنے کی کوشش کریں گے، کوشش ہے کہ ہمیں بھرپور کامیابی حاصل ہو۔ان کا کہنا تھا کہ مل کر بھرپور اپوزیشن کریں گے۔ واضح رہے کہ صدر مملکت کے عہدے کیلئے انتخاب کل ( منگل ) کو ہوگا۔ قومی اسمبلی اور چاروں ں صوبائی اسمبلیوں کے ایوانوں کو پولنگ اسٹیشنز کا درجہ دیا گیا ہے اور پولنگ کا عمل قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں بیک وقت شروع ہوگا۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس پارلیمنٹ ہاؤس اسلام آباد اور دیگر چاروں ہائیکورٹس کے چیف جسٹس صاحبان متعلقہ صوبائی اسمبلیوں میں پریذائیڈنگ افسران کی ذمہ داریاں سر انجام دیں گے ۔رجسٹرار سمیت دیگر افسر پولنگ افسروں کے طورپر معاونت کریں گے۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے صدارتی انتخاب کے لئے تمام ضروری انتظامات مکمل کر لئے گئے ہیں ۔ الیکٹورل کالج چھ یونٹس پر مشتمل ہے جس میں سینیٹ ،قومی اسمبلی ، پنجاب ،سندھ ، خیبر پختون اور بلوچستان کی صوبائی اسمبلیاں شامل ہیں۔ پنجاب ، سندھ اور خیبر پختون اسمبلیوں کے کل ووٹ بلوچستان اسمبلی کے ارکان کی تعداد کے برابر تصور ہوں گے ۔الیکشن کمیشن کے مطابق 4ستمبر کو ہونے والے صدارتی انتخاب کے لیے بیلٹ پیپرز کی چھپائی مکمل کرلی گئی ہے ۔ صدارتی انتخابات کے لئے مجموعی طور پر 1500 بیلٹ پیپرز چھاپے گئے ہیں، سفید رنگ کے بیلٹ پیپرز واٹر مارکڈ ہیں جن پر 3امیدواروں کے ناموں کے سامنے خالی خانہ چھاپہ گیا ہے۔ پورے انتخابی عمل کے بارے میں ارکان کی رہنمائی کیلئے اسمبلیوں کی عمارتوں میں ایک تفصیلی ہدایت نامہ آویزاں کردیا گیا ہے۔