پولیس میں سیاسی مداخلت-وزیر اعلی پنجاب کو ناہلی کا نوٹس جاری کرنے کا عندیہ

اسلام آباد( اخترصدیقی )چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے پنجاب پولیس میں سیاسی مداخلت کی تحقیقات کا حکم دیتے ہوئے ایک ہفتے میں رپورٹ طلب کرلی ۔عدالت نے کہاکہ62ون ایف کے تحت وزیراعلیٰ کوبھی بلایاجاسکتاہے،وزیراعلیٰ عثمان بزدار کی مداخلت سمیت تمام پہلووٴں پر انکوائری کرنے کا حکم دیاگیاہے۔پیر کوسپریم کورٹ میں ڈی پی او پاکپتن ازخود نوٹس کیس کی سماعت چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کی۔خاتون او ل کی بیٹی اور سابق خاوندخاور مانیکاعدالت میں پیش ہوگئے ۔ پنجاب پولیس کے سربراہ کلیم امام بھی پیش ہوئے اور بتایا کہ دیگر پولیس افسران بھی حاضر ہیں۔ ہم سب نے بیان حلفی بھی جمع کرا دیئے ہیں۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ خاور مانیکا کدھر ہیں؟ اور وہ شخص کہاں ہے جو پراپرٹی ٹائیکون ہے؟ کوٹ پینٹ میں ملبوس ایک شخص نے آگے بڑھ کر بتایا کہ میں احسن اقبال جمیل ہوں ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ تم وہی ہو جو اس دن وزیراعلی کے ساتھ تھا۔چیف جسٹس نے آئی جی سے کہا کہ آپ کو معلوم ہونا چاہئیے تھا کہ آپ کے افسر کو وزیراعلی نے بلایا ہے۔ آئی جی نے جواب دیا کہ میں نے بیان حلفی جمع کرایا ہے، اس میں لکھا ہے کہ رضوان گوندل کو آئندہ وزیراعلیٰ کے دفتر نہ جانے کا کہا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اسی وقت کیوں نہ روکا؟ آئی جی نے کہا کہ اسلام آباد میں تھا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ملاقات دس بجے تھی اور آپ کو تو ویسے بھی دعوی ہے کہ 24 گھنٹے کام کرتے ہیں تو فون پر احکامات دے دیتے کہ نہ جائیں۔چونکہ یہ ماضی میں بھی ہوتا رہا ہے اس لئے میں نے کہا کہ آج چلے جائیں آئندہ نہ جائیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کو میرے ساتھ اجلاس یاد نہیں رہا جب میں نے کہا تھا کہ آج سے آزاد ہو جائیں اور ان سیاست دانوں کے محتاج نہ بنیں، ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ آپ اپنے افسر کو کہہ رہے ہیں کہ آج تو اس حاکم کی تعمیل فرما دیں اگلی دفعہ مت جائیے گا۔چیف جسٹس نے پوچھا کہ ہمیں فائل دکھائیں، ڈی پی او کا تبادلہ تحریری آرڈر کے ذریعے ہوا یا زبانی احکامات سے؟ وہ فائل دے دیں جس پر نوٹنگ کی ہے، بتائیں پہلا نوٹس کب دیا؟۔ آئی جی نے جواب دیا کہ ڈی پی او کے تبادلے کا حکم زبانی دیا گیا، آئی جی نے کہا کہ حقائق چھپانے اور غلط بیانی کرنے پر رضوان گوندل کو تبدیل کیا گیا اور یہ بات انکوائری میں بھی سامنے آئی۔ زبانی احکامات پر تبادلہ کے بعد تحریری طور پر ہدایت دی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ تبادلے کے بعد جاری کیا گیا تحریری حکم ہی دکھا دیں۔ آئی جی نے کہا کہ وہ آج بنایا جانا تھا۔ چیف جسٹس نے سخت برہمی کا اظہار کیا تو آئی جی نے کہا کہ ماضی میں بھی رات کو احکامات جاری کئے جاتے رہے ہیں، جب میں اسلام آباد میں ایس ایس پی تھا تو رات دو بجے معطل کیا گیا تھا۔چیف جسٹس نے آئی جی سے کہا کہ آپ کو چیمبر میں بھی کہا تھا کہ عدالت سے سچ بولیں، کیا آپ نے احسن گجر کے خلاف کوئی کارروائی کی؟ اس کی کیا حیثیت ہے؟ یہ ہوتا کون ہے پولیس افسر سے اس طرح بات کرنے والا؟۔ اس کے بعد چیف جسٹس نے احسن گجر کو سخت لہجے میں کہ کہا کھڑے ہو جاوٴ ، تم کون ہو، کس حیثیت میں پولیس افسر سے بات کی؟احسن گجر نے کہا کہ یہ بچے میرے پاس آتے رہتے ہیں میں ان کا سرپرست (گارڈین) ہوں، ان آفیشل۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کیا ان کے والد نہیں ہیں؟۔ تم نے کیوں رابطہ کیا؟احسن گجر نے کہا کہ جب مجھے واقعہ کا پتہ چلا تو ایک مشترکہ دوست کے ذریعے ڈی پی او سے درخواست کی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کون ہے وہ مشترکہ دوست، افریقا والا یا آئی ایس آئی؟۔ احسن گجر نے کہا کہ افریقہ میں دوست پولیس افسر ہے، اقوام متحدہ کے مشن پر گیا ہے، اس کے ذریعے درخواست کی تھی۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیاآپکے علم میں تھا کہ ڈی پی او کو وزیراعلیٰ نے بلایا ہے ؟آئی جی نے کہاکہ مجھے اس وقت پتہ چلا جب ڈی پی او وزیراعلیٰ آفس روانہ ہوچکے تھے، میں نے کہا کہ آئندہ وزیراعلیٰ دفتر روانگی سے قبل مجھ سے اجازت لینا ہوگی۔چیف جسٹس نے کہا آپ نے ڈی پی او کو وزیراعلیٰ آفس جانے سے منع کیوں نہیں کیا ؟ آپ وزیراعلیٰ کے پی ایس او کو کہتے کہ میرے علم میں لائے بغیر ڈی پی او کو نہیں بلا سکتے، ڈی پی او پاکپتن کے تبادلے کا حکم کہاں ہے ؟ آئی جی نے بتایا کہ تبادلے کا حکم زبانی تھا۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا آپ نے ڈی پی او سے پوچھا کہ وزیراعلیٰ نے بلا کر کیا کہا ؟ آئی جی پنجاب نے کہا واقعہ سے متعلق متضاد اطلاعات مجھ تک پہنچیں، ڈی پی او پاکپتن کو حقائق کے تحت ٹرانسفر کیا،رضوان گوندل نے حقائق چھپائے اور غلط بیانی کی۔چیف جسٹس نے ایک بار پھر احسن جمیل گجر پر چڑھائی کرتے ہوئے کہاکہ آپ ہوتے کون ہیں تبادلے کی ہدایت دینے والے ؟ آپ وزیراعلیٰ کے دفتر میں کیا کر رہے تھے ؟ افریقہ سے فون کرائے جا رہے ہیں، آپ سمجھتے ہیں سیاسی اثر کی وجہ سے پولیس کو ذلیل کرالیں گے ؟گجرنے کہاکہ میں بچوں کا کفیل ہوں، ان کی وجہ سے ایکشن لیا۔رضوان گوندل نے عدالت کو بتایا کہ احسن جمیل نے کہا کہ آپ ان کے ڈیرے پر جا کر معافی مانگیں۔ چیف جسٹس نے آئی جی پنجاب سے استفسار کیا پولیس پر دباوٴ ڈالنے پر کیا مقدمہ بنتا ہے ؟ کلیم امام نے جواب دیا احسن جمیل کیخلاف پولیس پر دباوٴ ڈالنے کا مقدمہ بنتا ہے۔چیف جسٹس نے پوچھا کہ طارق صاحب آئے ہوئے ہیں آئی ایس آئی سے؟۔ اتنا چھوٹا سا واقعہ ہے اور آئی ایس آئی ملوث ہوگئی، یہ اس ملک میں قانون کی حکمرانی کی بنیاد ڈالی جا رہی ہے، کوئی افریقا جا رہا ہے، کوئی آئی ایس آئی کے پاس جا رہا ہے۔ جسٹس عمر عطا نے کہا کہ جو بھی ہے رضوان گوندل بھی بڑے افسر ہیں یا خود کو سمجھتے ہیں، احسن گجر آپ ان سے کیا چاہتے تھے؟۔احسن گجر نے کہاکہ وہ معاملے کاحل چاہتے تھے کیونکہ دومرتبہ واقعا ت ہوچکے تھے اور بچیوں کے لیے پریشانی تھی۔چیف جسٹس نے کہاکہ آپ بچیون کے مامے ،چاچے لگتے ہوآپ ان کے کیاہواس پر اس نے کہاکہ وہ ان کے نگہبان ہیں۔ اس پر چیف جسٹس نے مانیکاکوروسٹرم پر بلایااور کہاکہ آپ زندہ ہیں توپھر کوئی دوسراکیسے گارڈین بن گیا۔ مانیکانے بتایاکہ احسن گجرسے اس کے 1997سے فیملی تعلقات ہیں اور اہم ایک دوسرے کے گھر آتے جاتے ہیں میری مصروفیات کی وجہ سے یہ بھی معاملات کودیکھتے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہاکہ ان کاوزیراعلیٰ سے کیاتعلق ہے۔ مانیکانے کہ مجھے اس بات کاپتہ نہیں،میں نے تودونوں واقعات میں کوئی بات نہیں کی ۔ویسے بھی اگر میری بچیاں کسی پریشانی میں ہوں اور کوئی ان کی مددکردے تومیں ان کاشکریہ اداکروں گااور اگر آپ اس مددمیں احسن گجرکے خلاف کوئی کارروائی کرناچاہتے ہیں توآپ کابھی شکریہ اداکرتاہوں۔ چیف جسٹس نے کہاکہ پولیس پر اثراندازہونے کی کوشش کی گئی ہے۔پولیس نے اپنی آزادی داؤپر لگاکر کسی کادباؤکیوں قبول کیاہے انھیں ایسانہیں کرناچاہیے تھے ۔چیف جسٹس نے ایک بار پھر گجرسے پوچھا آپ کا وزیراعلیٰ پنجاب سے کیا تعلق ہے۔ احسن گجر نے کہا کہ میں شہری ہوں۔چیف جسٹس نے کہا کہ وزیراعلیٰ کو کیا حق تھا کہ پولیس کو بلا کر کہتا جس پر ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے عدالت کو بتایا کہ وزیراعلیٰ پنجاب نے صرف داد رسی کرنے کا کہا تھا ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ ہمیں وزیراعلیٰ کو نوٹس دینا چاہیے۔ ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ وزیراعلیٰ قبائلی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ یہ کوئی قبائلی ملک نہیں یہاں قانون چلتا ہے، وزیراعلیٰ پنجاب کو قانون کے مطابق کام کرنا ہوتا ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ وزیراعلیٰ کا اس واقعے سے کیا تعلق تھا، ہم وزیراعلیٰ کو 62 ون ایف کے تحت نوٹس جاری کرتے ہیں، کیوں نہ انہیں طلب کرکے پوچھا جائے، دائیں بائیں اور درمیان سے جھوٹ بولا جارہا ہے۔چیف جسٹس نے آئی جی پنجاب سے استفسار کیا کہ ‘کیا وزیر اعلیٰ پنجاب اور بڑے لوگ خدا ہیں؟’ آپ نے پولیس فورس کی عزت بچانے کے لیے کیا اقدامات کیے، ہمارا صرف ایک مقصد ہے پولیس خودمختار ہو، وزیراعظم نے بھی اس طرح کی بات کی ہے۔ خاور مانیکا نے کہا کہ بچی نے بتایا پولیس نے دوران ڈیوٹی شراب پی رکھی تھی اور پولیس کے رویے کی وجہ سے بچی کانپ رہی تھی۔چیف جسٹس نے کہا کہ مجھے توآئی جی پنجاب نے مایوس کیا، ہم بچی کو مس ہینڈل کرنے اور پولیس میں سیاسی مداخلت پر ایکشن لیں گے۔بعدازاں عدالت نے حساس ادارے کے افسرسے کہاکہ وہ آئندہ احتیاط کریں ،عدالت نے آئی جی پنجاب کوحکم دیاکہ بچیوں کوہراساں کرنے اور ڈی پی اوکے تبادلے میں سیاسی اثرورسوخ کے استعمال کی مکمل انکوائری کی جائے۔ اس پر احسن گجرنے کہاکہ ان کے معاملے میں کمیشن بنادیاجائے اس پر چیف جسٹس نے کہاکہ پہلے آپ نے ایک پولیس افسرپر اعتمادنہیں کیااور اب عدالتی کمیشن بنانے کی بات کررہے ہیں ہم نے کمیشن نے بناناچھوڑ دیے ہیں اب ادارے اپناکام خودکریں ۔

Comments (0)
Add Comment