اسلام آباد؍کراچی(نمائندہ امت؍ اسٹاف رپورٹر)سپریم کورٹ میں پیش کردہ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ دبئی میں 5 ہزار 227 پاکستانیوں کے150ارب ڈالر کے اثاثے اور اکاؤنٹس کا سراغ مل گیا ہے ۔ایف بی آر 300 افراد کو بیرونی جائیدادوں پرنوٹس جاری کر چکا ہے ۔پاکستانیوں کی یو اے ای میں 150 ارب ڈالرز کی جائیدادیں اوربینک اکاؤنٹس ہیں، ایف بی آر نے جاری کردہ نوٹس کی تفصیلات سپریم کورٹ میں پیش کر دی ہیں۔ اسٹیٹ بینک نے اے جی فرگوسن کی رپورٹس جمع کرا دی ہیں۔چیف جسٹس ثاقب نثار نے بیرونی ممالک سے رقم کی واپسی میں پیشرفت پر عدم اطمینان کا اظہار کر دیا ہے ۔ چیف جسٹس جاری نوٹسز کی فہرست سربمہر لفافے میں پیش کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے متنبہ کیا ہے کہ اگر کوئی نام افشا ہوا تو ایف بی آر اور رجسٹرار سپریم کورٹ ذمے دار ہوں گے۔تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں بیرون ملک جائیدادوں سے متعلق ازخودنوٹس کیس کی سماعت ہوئی ۔ اس موقع پر گورنر اسٹیٹ بینک طارق باجوہ نے عدالت کو بتایا کہ برطانیہ نے 225 افراد کی جائیدادوں کی معلومات بھجوا دی ہیں۔عدالتی معاون اے جی فرگوسن کے چیئرمین شبر زیدی کا کہنا تھا کہ زیادہ رقم ہنڈی اور حوالے کے ذریعے بھیجی گئی ۔ پیسے کو زرعی آمدن ظاہر کر کے باہر لے جایا جاتا ہے۔ امارات میں5227 پاکستانیوں کی جائیدادیں ملی ہیں۔دبئی میں 5 ہزار 227 پاکستانیوں کے150ارب ڈالر کے اثاثے اور اکاؤنٹس کا سراغ ملا ہے تاہم ان اعداد و شمار کو حتمی تصور نہ کیا جائے ۔چیف جسٹس نے کہا کہ وہ با ہر سے رقم کی واپسی کی پیشرفت سے مطمئن نہیں۔5 ماہ قبل نوٹس لیا ۔ پیشرفت سست ہے ایمنسٹی اسکیم کے باوجود رقوم وجائیدادیں باہر پڑی ہیں۔ گورنر اسٹیٹ بینک نے کہا کہ اگر ان لوگوں نے جائیدادوں کا بیان حلفی دیا تو ٹیکس لیا جائے گا۔دبئی سے جائیدادیں نہ ماننے والوں کے خلاف بے نامی قانون کے تحت کارروائی کے لئے کہا جائے گا ۔جائیدادیں تسلیم کرنے والوں سے ذرائع طلب کریں گے۔ پیر کو سپریم کورٹ میں پیش کی گئی ایک رپورٹ کے مطابق دبئی لینڈ ڈپارٹمنٹ کا ریکارڈ نہ ملنے کے باعث تحقیقات تعطل کا شکار ہیں۔6 سو 62 پاکستانیوں کی دبئی میں جائیدادیں فرسٹ سورس ریکارڈ سے پتہ چلیں۔ 14 سو 67 جائیدادیں سائبر انٹیلی جنس رپورٹ کی بنیاد پر سامنے آئیں۔رپورٹ کے مطابق دبئی میں پاکستانیوں کی جائیدادوں کی ریکوری کیلئے باہمی قانونی تعاون کی درخواست کرنا ہوگی۔برطانوی حکومت نے نایئجیریا اور روس کے ساتھ پاکستان کو تین بڑے منی لانڈرنگ سورس کا ملک قرار دیا ہے۔رپورٹ میں گورنر اسٹیٹ بینک کو سفارش کی گئی ہے کہ بیرون ملک پاکستانیوں کے اثاثے واپس لانے والی کمیٹی کا دائرہ اختیار بیرونی ملک اثاثوں اور تخمینے تک بڑھایا جائے۔رپورٹ میں تجویز دی گئی ہے کہ پاکستانی دولت کو واپس لانے والی کمیٹی کا دائرہ اختیار عالمی قانون کے تحت باہمی معلومات تک بڑھایا جائے۔اسٹیٹ بینک کی پیش کردہ رپورٹ کے سلسلے میں ایف آئی اے نے 56 انکوائریز کی تھیں۔ ’’امت‘‘ کو تحقیقات سے منسلک اہم ذرائع نے بتایا ہے کہ3 بر س قبل سورس رپورٹ پرساڑھے 4ہزار افراد شہریوں کی تحقیقات شروع کی گئی تھی بعد میں ان پاکستانیوں کی تعداد بڑھتی گئی۔ذرائع کا کہنا ہے کہ بیشتر پاکستانیوں نے دبئی کی دو بڑی پراپرٹی کمپنیوں داماک اوراعمار کے ذریعے سرمایہ کاری کی۔اس مقصد کیلئے کالا دھن دبئی منتقل کیا گیا اور منی لانڈرنگ بھی کی گئی۔ ان اثاثوں کو پاکستانیوں نے ظاہر نہیں کیا اور نہ ہی دبئی میں جائیداد خریدنے والوں کی اکثریت ملک میں ٹیکس دہندہ ہے ۔ ذرائع کے بقول سورس رپورٹ پر تحقیقات کو بڑھایا گیا تو صرف ایف آئی اے سندھ کے حصے میں 422شہری آئے جن کی امارات میں 40ارب سے زائد مالیت کی 1800سے زائد جائیدادیں ہیں ۔ان پاکستانیوں کو نوٹس ارسال کرکے بیانات اور تفتیش کے لئے طلب کیا گیا ۔ابتدائی طور پرملک بھر میں 56 انکوائریاں شروع کی گئیں۔ہر انکوائری میں 100 پاکستانیوں کے کوائف شامل کر مختلف تفتیشی افسران کے سپرد کئے گئے۔ اس ضمن میں صرف سندھ میں 26انکوائریاں کی گئیں جنہیں باقاعدہ طور پر 6ماہ قبل فوجداری انکوائریوں یعنی تحقیقات میں تبدیل کیا گیا۔موجودہ ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے بشیر میمن کے آنے کے بعداس پر کام تیزی سے آگے بڑھایا گیا۔ اب انکوائری رپورٹ بھیجی جا چکی ہے اور اسے ایف ٹی ایف ٹاسک کا حصہ بنانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔فنانشل ٹاسک فورس میں وفاقی وزارت داخلہ ،وفاقی وزارت خزانہ اور وفاقی وزارت خارجہ کے علاوہ وفاقی وزارت صنعت و تجارت کے سیکریٹریز شامل ہونں گے ۔ اس میں ایف آئی اے ،اسٹیٹ بینک ،ایس ای سی پی و ایف بی آر کے نمائندے شامل ہوں گے جو مشترکہ تحقیقات کو آگے بڑھائیں گے ۔ اس میں پیسے کو واپس لانے کے لئے عملی اقدامات کئے جائیں گے۔ ذرائع کے بقول فنانشل ٹاسک فورس کے اعلیٰ سطح کے ڈھانچے کو حتمی شکل دے دی گئی ہے۔دبئی ، برطانیہ اور یورپ کے دیگر ملکوں میں سرمایہ کاری کرنے والے پاکستانیوں کی فہرست مرتب کرنا شروع کردی گئی ہے۔اسٹیٹ بینک فارن اکاؤنٹس پر کام کررہا ہے۔ایس ای سی پی کے حکام رقوم بھجوانے والوں کی کمپنیوں کے درست کوائف فراہم کرنے کے ذمے دار ہوں گے ۔تینوں اداروں کی تحقیقات کے بعد ایف بی آر حکام فنانشل ٹاسک فورس کے تحت اثاثے چھپانے والوں سے ٹیکس وصولی اور ریکوری کریں گے جس کا طریقہ کار طے کرلیا گیا ہے۔ٹاسک فورس کے نچلے اور اہم ڈھانچے پر کام کیا جا رہا ہے جس میں چاروں اداروں کے ان افسران کو نامزد کرکے شامل کیا جا رہا ہے جنہوں نے فیلڈ میں رہ کر مشترکہ طور پر کام کرنا ہے ،ایف آئی اے ذرائع کے بقول دبئی میں اثاثے بنانے والوں اور منی لانڈرنگ کرنے والوں کے خلاف انکوائری رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کروادی گئی ہے اور ہی ان افراد سے ریکوری اور وصولیوں کے لئے ایف بی آر حکام کو بھی اسلا م آباد میں فہرست فراہم کردی گئی ہے ۔
اسلام آباد(نمائندہ امت)وزیر اعظم عمران خان کی زیر صدارت اعلیٰ سطح کا اجلاس وزیر اعظم ہاؤس میں ہوا ۔ اجلاس میں اسمگلنگ و حوالہ و ہنڈی کی روک تھام کے قوانین کو مزید موثر بنانے کا فیصلہ کیا گیا۔اجلاس میں سیکریٹری تجارت اور ایف بی آر حکام نے اسمگلنگ و حوالہ و ہنڈی کے ذریعے رقوم کی غیر قانونی ترسیلات سے معیشت کو ہونے والے نقصان پر تفصیلی بریفنگ دی گئی۔اجلاس میں موجودہ قوانین میں ضروری ترامیم کیلئے اٹارنی جنرل کی سربراہی میں اسٹیٹ بینک،ایف بی آرٟ، کسٹم اور ایف آئی اے نمائندوں پر مشتمل کمیٹی بنا ئی گئی ہے جو ایک ہفتے میں سفارشات وزیرِ اعظم کو پیش کرے گی۔وزیرِ اعظم نے اس موقع پر وزارتِ داخلہ کو انتظامی اقدامات کے لائحہ عمل کی سفارشات بھی اسی مدت میں پیش کرنے کی ہدایت کی ۔اجلاس میں وزیرِ خزانہ اسد عمر، وزیر مملکت داخلہ شہریار آفریدی،اٹارنی جنرل انور منصور خان ، وزیر اعظم کے مشیر برائے ادارہ جاتی اصلاحات ڈاکٹر عشرت حسین، معاون خصوصی احتساب مرزا شہزاد اکبر، معاون خصوصی سیاسی امور نعیم الحق، گورنر اسٹیٹ بینک ، سیکریٹریز خزانہ، داخلہ وہ تجارت،چئیرمین ایف بی آر،ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے اور دیگر اعلیٰ افسران نے شرکت کی۔