امریکہ کیلئے دہشت کی علامت مولانا جلال الدین حقانی انتقال کر گئے

پشاور (رپورٹ: محمد قاسم) امریکہ کے لئے خوف اور دہشت کی علامت ، گوریلا جنگ کے ماہر کمانڈر مولانا جلال الدین حقانی 79سال کی عمر میں انتقال کرگئے۔ اس بات کا اعلان طالبان کی جانب سے جاری بیان میں کیا گیا، جبکہ ان کے صاحبزادے اور نائب طالبان امیر سراج الدین حقانی نے بھی اپنے والد کے انتقال کی تصدیق کی ہے۔ مولانا جلال الدین حقانی گزشتہ کئی برس سے علیل تھے اور اسی سبب طویل عرصے سے سیاسی و عسکری منظر نامے سے بھی غائب تھے۔ 2015میں بھی ان کے انتقال کی خبریں سامنے آئیں، تاہم ان کے خاندانی ذرائع نے اس کی تردید کی تھی۔ طالبان کے بعض ذرائع کے مطابق ماضی میں وفات کی خبریں شائع کرنے کا اصل مقصد جلال الدین حقانی کی جانب سے امریکہ کی توجہ ہٹانا تھا۔ منگل کو جاری کردہ تحریری بیان میں یہ واضح نہیں کیا گیا کہ انتقال کب ہوا، تاہم طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس سے فون پر گفتگو میں بتایا کہ عظیم مجاہد سپہ سالار کا انتقال پیر کو افغانستان میں ہوا۔ بیان میں کہا گیا کہ ‘‘بڑے افسوس کے ساتھ ہم اپنے ایمان والے مجاہد افغانیوں اور وسیع اسلامی امت کو یہ اطلاع دیتے ہیں کہ معروف جہادی شخصیت، ممتاز عالم، مثالی جنگجو اور جہادیوں کے پیش رو، اسلامی امارات میں سرحد کے وزیر اور قائد کونسل کے رکن محترم الحاج مولوی جلال الدین حقانی طویل علالت کے بعد انتقال کر گئے۔ انّا للہ و انّا الیہ راجعون’’۔امارت اسلامیہ افغانستان جناب حقانی صاحب رحمہ اللہ کے جہاد پرور خاندان، تمام مجاہدین، افغان عوام اور عالم اسلام کے غم میں شریک ہے۔ اللہ تعالی مرحوم کے تمام احسن اعمال، جہاد، دعوت، علم اور اصلاح کی تمام تکالیف، مصائب اور ہجرتوں کو قبول فرمائیں۔ آمین یا رب العالمین۔ بیان میں مولانا حقانی کے کردار اور قربانیوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ مرحوم موجودہ عصر کے عظیم اور مایہ ناز جہادی اشخاص میں سے ایک تھے۔مجاہدین کو ان پر اسی طرح کا اعتماد تھا، جس طرح صحابہ کرام حضرت خالد بن ولید پر رکھتے تھے۔ جلال الدین حقانی نے اس وقت علم جہاد بلند کیا، جب ہمارا ملک اور افغان عوام کمیونسٹی الحاد کے خطرے سے دوچار تھا۔ امارت اسلامیہ کے قیام کے بعد انہوں نے بھرپور اخلاص اور قوت سے عالی قدر امیرالمومنین ملا محمد عمر مجاہد رحمہ اللہ کیساتھ ملکر اسلامی نظام کی استحکام کی راہ میں قابل قدر خدمات سرانجام دیں۔ امریکی جارحیت کے خلاف جناب حقانی صاحب کا کردار، کارنامے اور اسلامی امارت کو متحد رکھنے میں موصوف کی قابل ستائش جدوجہد تاریخ کا وہ سنہری باب ہے، جس پر امارت اسلامیہ کی آئندہ نسلیں ہمیشہ فخر کرتی رہے گی۔ وہ اب جسمانی طور پر ہمارے ساتھ موجود نہیں رہے، مگر ان کا فکر اور نظریہ زندہ ہے۔ ان کا محاذ اب تک گرم ہے اور امارت اسلامیہ اس پر گامزن رہے گی۔ تمام مجاہدین، افغان عوام اور امت مسلمہ سے اپیل کرتے ہیں کہ مرحوم کی روح کے ایصال ثواب کے لیے دعائیں اور قرآن کریم کی تلاوت کا اہتمام کریں۔ یہ ان کا ہم پر حق بنتا ہے۔اللہ تعالی انہیں اپنے دیدار اور عالی درجات سے نوازیں۔ آمین یا رب العالمین۔ مقامی ذرائع کے مطابق جلال الدین حقانی کی تدفین خوست میں کی گئی۔ان کے جنازے میں افغان طالبان کے لیڈروں، سابق جہادی کمانڈروں، خوست کے قبائلی سرداروں اور زدران قبیلے کے مشران نے شرکت کی۔ جلال الدین حقانی کا شمار افغانستان کے مؤثر ترین جہادی رہنماؤں میں ہوتا تھا۔ جلال الدین حقانی روس کے خلاف جہاد میں پیش پیش رہے اور روسی افواج کو ناکوں چنے چبوائے۔ افغانستان پر امریکی حملے کے بعد سے ان کا ہدف مغربی قابض افواج رہیں اور حقانی نیٹ ورک نے امریکی فوج کو جتنا نقصان پہنچایا ہے۔ کسی نے نہیں پہنچایا۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان سے ڈومور کے امریکی مطالبے میں سب سے زیادہ زور حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی پر دیا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جلال الدین حقانی ایک امریکی فضائی حملے میں زخمی ہوگئے تھے، جس کے بعد سے وہ صاحب فراش تھے۔ بعض ذرائع کا کہنا ہے کہ جلال الدین حقانی پر فالج کا حملہ بھی ہوا تھا، جس کے باعث بھی انہوں نے کئی سال سے اپنی نقل و حرکت محدود کر رکھی تھی۔ جلال الدین حقانی 1939میں افغان صوبے پکتیا کے ضلع زدران کے گاؤں کاریزگئے میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد ایک متمول تاجر اور وسیع اراضی کے مالک تھے اور ان کا تعلق خوست کے پشتون قبیلے زدران سے تھا۔ جلال الدین حقانی نے دارالعلوم حقانیہ سے علوم اسلامیہ کی ڈگری حاصل کی اور 1964میں فارغ التحصیل ہوئے، جس کے بعد 1970میں انہوں نے کچھ عرصہ پشاور میں امامت کے فرائض بھی ادا کئے۔ 1973میں ظاہر شاہ کی جلاوطنی اور داؤد خان کے برسراقتدار آنے کے بعد انہوں نے افغانستان میں سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینا شروع کر دیا، تاہم حکومت مخالف سرگرمیوں کی بنا پر جلال الدین حقانی کو جلاوطنی اختیار کرنا پڑی اور وہ پاکستان کے علاقے میران شاہ آگئے، جہاں انہوں نے داؤد خان کے خلاف بغاوت کے لئے اپنے گروپ کو منظم کیا۔ 1978میں افغانستان میں روسی مداخلت کے بعد جلال الدین حقانی نے جہادی سرگرمیوں کا آغاز کیا اور حزب اسلامی (یونس خالص گروپ) سے منسلک ہوگئے۔ روس کے خلاف جہاد میں فعال کردار کو دیکھتے ہوئے مختلف عرب ممالک نے ان کی کھل کر امداد کی۔ جلال الدین حقانی کو عربی پر عبور حاصل تھا، جس کی وجہ سے ان کے ‘‘القاعدہ’’ کے سربراہ اسامہ بن لادن سمیت سوویت یونین کے خلاف جنگ میں شریک عرب مجاہدین سے بھی قریبی تعلقات قائم ہوگئے تھے، جو جنگ کے خاتمے کے بعد بھی برقرار رہے۔ 1991میں سابق افغان صدر نجیب اللہ کے دور میں جلال الدین حقانی کی قیادت میں مجاہدین نے خوست پر قبضہ کیا، جو روسی قبضے سے چھڑایا جانے والا پہلا شہر تھا۔ 1992میں کابل سے روسی افواج کے انخلا کے بعد قائم ہونے والی حکومت میں جلال الدین حقانی کو وزیر انصاف مقرر کیا گیا۔ مجاہدین دھڑوں میں پیدا ہونے والے اختلافات میں جلال الدین حقانی غیر جانبدار رہے، جس کے نتیجے میں تمام دھڑوں سے ان کے تعلقات خوشگوار رہے۔ 1995میں انہوں نے طالبان سے اتحاد کرلیا اور 1996-97میں انہوں نے شمالی افغانستان میں طالبان کے ملٹری کمانڈر کی حیثیت سے کام کیا۔ طالبان حکومت کے دوران جلال الدین حقانی نے وزیر سرحدی امور اور گورنر پکتیا کی حیثیت سے فرائض ادا کئے۔ 2001میں جلال الدین حقانی کو طالبان کا ملٹری کمانڈر مقرر کیا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ القاعدہ سربراہ اسامہ بن لادن کے افغانستان سے نکلنے میں بھی جلال الدین حقانی نے اہم کردار ادا کیا تھا۔ افغانستان پر امریکی قبضے کے بعد قائم ہونے والی کرزئی حکومت، جس میں روس کے خلاف برسرپیکار رہنے والے کئی رہنما شامل ہوگئے تھے،نے جلال الدین حقانی کو بھی حکومت میں شمولیت کی پیشکش کی، لیکن انہوں نے پیشکش ٹھکرا دی اور امریکی فوج کیخلاف مزاحمت کے لئے مجاہدین کو ازسرنو منظم کیا، جس کے بعد سے افغانستان میں امریکی اور نیٹو افواج کو جتنا نقصان حقانی نیٹ ورک نے پہنچایا ہے کسی نے نہیں پہنچایا۔ 2001میں ہی انہوں نے رضاکارانہ طور پر اپنے گروپ کی عملی سربراہی اپنے بیٹے سراج الدین حقانی کے سپرد کر دی۔ حقانی نیٹ ورک افغانستان کے شمال مشرقی صوبوں کنڑ اور ننگرہار اور جنوب میں زابل، قندھار اور ہلمند میں مضبوط گروپ کے طور پر پہچانا جاتا ہے۔ حقانی نیٹ ورک کے حملوں کے شدت کے باعث امریکہ نے اس کو دہشت گرد گروپوں کی فہرست میں بھی شامل کر رکھا ہے۔ دریں اثنا تعزیتی بیانات میں طالبان کے سربراہ مولوی ہیبت اللہ اخونزادہ، حزب اسلامی کے سربراہ اور سابق وزیر اعظم گلبدین حکمت یار نے جلال الدین حقانی کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ روس کی شکست میں جلال الدین حقانی کا کردار ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔

Comments (0)
Add Comment