بجلی غیر قانونی بیچنے کا دھندہ 30 آبادیوں تک وسیع نکلا

کراچی (رپورٹ :سید نبیل اختر ) کے الیکٹرک کی جانب سے بجلی غیر قانونی بیچنے کا دھندہ 30 آبادیوں تک وسیع نکلا۔مذکورہ نیٹ ورککم ازکم وصولی کے نام پر مضافاتی علاقوں میں قائم کیا گیا۔شاہ لطیف ٹاؤن ، گڈاپ کے علاقے مسلم آباد ، جنجار گوٹھ ، پیر بخش گوٹھ ،تھارو مینگل گوٹھ ، آئی سی آئی ، بلدیہ ٹاؤن ، اتحاد ٹاؤن سمیت دیگر علاقوں میں 64 پی ایم ٹیز لگوا کر ٹھیکیداروں کے ذریعے لوڈمنیجمنٹ ٹیرف کے برخلاف 5 روپے فی یونٹ بجلی فروخت کی جاتی رہی اور یہاں سے ہونے والا نقصان قانونی صارفین سے لیا جارہا ہے۔احسن آباد میں آر الیکٹرک نامی غیرقانونی نیٹ ورک بھی8 سالہ معصوم بچے عمر کے ہاتھ جلنے اور معذوری کے نتیجے میں سامنے آیا۔ بجلی کمپنی سارا ملبہ اسی پر ڈال کر دیگر چھپانے کی کوشش کر رہی ہے۔اہم ذرائع نے بتایا کہ کے الیکٹرک انتظامیہ نے 2007 کے بعد بجلی کی ترسیل کے لئے غیر قانونی ہتھکنڈے استعمال کئے تاکہ زیادہ سے زیادہ منافع حاصل کیا جا تا رہے ، اس سلسلے میں گوٹھوں میں قائم کنڈہ سسٹم ختم کرنے کے لئے وہاں ٹھیکے پر پی ایم ٹیز لگا کر دی گئیں اور ٹھیکیداروں سے 3 سے 5 روپے فی یونٹ وصول کیا جاتا رہا ۔ کے الیکٹرک کی انتظامیہ کا خیال تھا کہ اس طرح کم از کم وصولی ممکن ہو سکے گی ۔ ذرائع نے بتایا کہ کے الیکٹرک نے گوٹھوں کو بجلی دینا شروع کی تو چائنہ کٹنگ کر کے پلاٹ فروخت کرنے والے متحدہ دہشت گرد بھی اپنا حصہ مانگنے پہنچ گئے ، متحدہ رہنماؤں نے کے الیکٹرک سے مزید کم پر ٹھیکے حاصل کئے اور ہائی ٹینشن سے لے کر لائیٹ ٹرانسمیشن تک لائنیں کے الیکٹرک کی پی ایم ٹیز سے منسلک کر دیں ۔ ذرائع نے بتایا کہ کے الیکٹرک کے اعلیٰ عہدیداروں نے ان غیر قانونی نیٹ ورک سے پہنچنے والے نقصان کی وصولی ان تمام صارفین سے کرنا شروع کی جو قانونی کنکشن رکھتے تھے ۔ معلوم ہوا ہے کہ قانونی صارفین سے اوور بلنگ کا سلسلہ اس نقصان کو پورا کرنے کے لئے شروع کیا گیا جس کے نتیجے میں کے الیکٹرک نے دگنا منافع کمایا ۔ ’’امت‘‘ کو تحقیقات پر معلوم ہوا ہے کہ شاہ لطیف ٹاؤن کے رہائشی بجلی کنکشن کے حصول کے لئے کئی سال تک وفود کی شکل میں جوگی موڑ پر واقع بن قاسم آئی بی سی کے چکر لگاتے رہے جہاں انہیں کے الیکٹرک کی جانب سے ایچ ٹی اور ایل ٹی کی مد میں کروڑوں روپے کا اسٹیمنٹ بنا کر دیا جاتا اور مذکورہ رقم کی ادائیگی کے بعد ہی بجلی کی فراہمی کا کہا جاتا رہا ،معلوم ہوا ہے کہ مکینوں کی جانب سے کے الیکٹرک افسران کو بتایا گیا کہ وہ ضابطہ کے مطابق نئے کنکشن کی رقم تو ادا کرسکتے ہیں تاہم ایچ ٹی اور ایل ٹی لائنیں اور پی ایم ٹیز کی مد میں کروڑوں روپے کی رقم کہاں سے لائیں جس پر کے الیکٹرک کی جانب سے علاقہ کے رکن اسمبلی کے ساتھ ایم ڈی اے سے رابطہ کرکے مذکورہ رقم فراہم کرنے کا مشورہ بھی دیا جاتا رہا۔ معلوم ہوا ہے کہ شاہ لطیف ٹاؤن کے مکینوں کی جانب سے اس وقت کے ایم پی اے ساجد جوکھیو سمیت دیگر حکام سے بھی رابطہ کیا گیا تاہم کہیں کوئی شنوائی نہ ہوئی جس پر مکینوں نے روز مرہ کے استعمال کے لئے دور دراز علاقوں سے کنڈا کنکشن حاصل کیا ۔ ذرائع نے بتایا کہ کے الیکٹرک متعدد بار درخواستوں کے باوجود کئی سالوں تک شاہ لطیف ٹاؤن کے مکینوں کو بجلی فراہم کرنے سے گریز کرتی رہی تاہم کے الیکٹرک کے رویے سے تنگ مکینوں نے جب کنڈے سے بجلی استعمال کرنا شروع کی تو کے الیکٹرک نے کنڈا بلنگ کے نام سے اسکیم متعارف کروائی اور اس سلسلے میں شاہ لطیف ٹاؤن کے مکینوں کو بجلی فراہم کرنے اور اس مد میں رقم کی وصولی کے لئے علاقائی سطح پر مختلف ناموں سے الیکٹرک کمپنیاں بنادیں۔انہیں گیارہ ہزار کی مین لائن سے کنکشن فراہم کیا گیا اور علاقے میں بجلی فراہم کرنے اور رقم وصولی کی ذمہ داری ٹھیکیداروں کے ذمہ لگائی ۔ کے الیکٹرک اور شاہ لطیف ٹاؤن میں سرگرم مقامی الیکٹرک کمپنیاں جن میں شاہ الیکٹرک اور غنی الیکٹرک شامل ہیں ، ان کے درمیان ہونے والے معاہدے کے متعلق معلوم ہوا ہے کہ کے الیکٹرک نے گیارہ ہزار کی مین لائن کے ذریعے پی ایم ٹیز کو بجلی فراہم کرنا تھی جب کہ علاقے میں پی ایم ٹیز لگانے اور ایل ٹی لائنیں ڈالنے اور اس کے ذریعے مکینوں کو بجلی فراہمی کی ذمہ داری ٹھیکیدار کمپنی کی تھی ۔معلوم ہوا ہے کہ کے الیکٹرک انتظامیہ نے ٹھیکیدار کمپنیوں سے فی پی ایم ٹی 25 سے 35 لاکھ روپے وصول کئے جب کہ ساتھ ہی لاکھوں روپے سیکورٹی ڈیپاذٹ کی مد میں بھی وصولی کی گئی، مذکورہ رقم کی ادائیگی کے بعد ٹھیکیداروں کی جانب سے علاقے میں ایل ٹی لائینوں کی تنصیب کے بعد فی کنکشن 15 ہزار روپے میں شہریوں کو فراہم کیا گیا جس کے بعد شہریوں کو ان لائنوں سے بجلی فراہمی کا عمل شروع ہوا ۔ مذکورہ علاقوں میں بلنگ کے حوالے سے معلوم ہوا ہے کہ ٹھیکیدار کمپنیوں نے اس سلسلے میں ماہوار تنخواہوں پر ملازمین رکھے ہوئے ہیں جو گھر گھر وصولی کرتے ہیں ، مذکورہ کمپنیوں کی جانب سے ہر مکان میٹر نصب کیا گیا ہے اور انہیں میٹر نمبر اور کنزیومر نمبر بھی الاٹ کیا گیا ہے ، پرائیوٹ کمپنی کے یہ ملازمین ہر ماہ گھروں پر لگے میٹرز سے ریڈنگ حاصل کرنے کے بعد بل تیار کرتے ہیں اور ان بلز کے حساب سے مکینوں کو ہر ماہ ادائیگی کرنا ہوتی ہے ، جب کہ بلوں کی ادائیگی کے لئے ان غیر قانونی کمپنیوں کی جانب سے شاہ لطیف ٹاؤن کے ہر سیکٹر میں اپنا دفتر قائم کیا گیا ہے جہاں شہری اپنا ماہانہ بل ادا کرتے ہیں ۔ اسی طرح کے الیکٹرک کی جانب سے مذکورہ کمپنیوں کو پی ایم ٹیز پر نصب میٹرز کی ریڈنگ کے حساب سے بل ارسال کیا جا تا ہے ۔معلوم ہوا ہے کہ شاہ لطیف ٹاؤن کے 16 سیکٹرز میں سے محض ایک سیکٹر 17 اے میں کے الیکٹرک بجلی سپلائی کرتی ہے جب کہ باقی تمام سیکٹرز جن میں سیکٹر 15،16، سیکٹر 19 بی، 20بی، سیکٹر 22 اے 22 بی سمیت دیگر سیکٹرز شامل ہیں ، ان تمام سیکٹرز میں ان غیر قانونی کمپنیوں کی جانب سے بجلی سپلائی کی جاتی ہے ۔اس سلسلے میں ’’امت‘‘ کو شاہ لطیف ٹاؤن میں کے الیکٹرک کی جانب سے غیر قانونی طور پر شاہ الیکٹرک کی ایک پی ایم ٹی پر بھیجا گیا بل موصول ہوا ، یہ بل کے الیکٹرک کی جانب سے شاہ الیکٹرک انجینئرز کے نام سے جاری ہوا جس میں بل کا ٹیرف اے ون آر کے ساتھ منسلک لوڈ 225 ظاہر کیا گیا ،بل کی تاریخ اجرا 14 مارچ 2018 جب کہ اس میں میٹر ریڈنگ کی تاریخ 21 مارچ 2018 درج ہے ۔ مذکورہ بل میں استعمال شدہ یونٹ 88 ہزار 842 روپے کئے گئے اور مقررہ تاریخ میں واجب الادا رقم 9 لاکھ 43 ہزار 998 روپے کے ساتھ مقررہ تاریخ کے بعد واجب الادا رقم 9 لاکھ 95 ہزار 431 روپے ظاہر کی گئی ۔کے الیکٹرک کی جانب سے جاری مذکورہ بل کی تفصیلات میں مزکرہ چارجز کی مد میں 5 لاکھ 14 ہزار 324 روپے ، متغیر چارجز کی مد میں 4 روپے 41 پیسے اور سرچارج کی مد میں 20 روپے ظاہر کئے گئے ۔اسی طرح مذکورہ بل میں الیکٹریسٹی ڈیوٹی کی مد میں 7 ہزار 717 روپے جب کہ جنرل سیلز ٹیکس کی مد میں 88 ہزار 751 روپے شامل کئے گئے اور انکم ٹیکس کی مد میں 80 روپے اور بنک چارجز کی مد میں 8 روپے کے ساتھ مجموعی رقم 6 لاکھ 10 ہزار 905 روپے ظاہر کی گئی جب کہ بقایاجات میں 3 لاکھ 33 ہزار 92 روپے کی رقم بھی مذکورہ بل میں شامل کی گئی ،’’امت‘‘ کو حاصل ہونے والے بل میں کے الیکٹرک کی جانب سے ٹیرف کی تفصیلات ظاہر نہیں کی گئی اور اس حوالے سے بل میں موجود خانہ خالی چھوڑا گیا ہے تاہم سابقہ معلومات میں مذکورہ اکاؤنٹ سے جمع کروائی گئی رقم میں ستمبر 2017 میں 6 لاکھ 400 روپے ، اکتوبر 2017 میں 8 لاکھ 36 ہزار روپے ، نومبر 2017 میں 8 لاکھ 72 ہزار 849روپے ، دسمبر 2017 میں 6 لاکھ 31 ہزار 108 روپے ، جنوری 2018 میں 5 لاکھ 2 ہزار 500 روپے اور فروری 2018 میں 5 لاکھ 59 ہزار 388 روپے کی رقم ظاہر کی گئی ہے ۔ کے الیکٹرک عام گھریلوں صارف سے 300 یونٹ تک بجلی استعمال کرنے پر 10 اشاریہ 20 روپے اور 300 یونٹ سے زائد استعمال کرنے والے گھریلوں صارفین سے بالترتیب 15 اشاریہ 45 روپے کے حساب سے فی یونٹ رقم وصول کرتی ہے جب کہ اس کے برخلاف کے الیکٹرک کی جانب سے شاہ الیکٹرک انجینئرز سے 5روپے فی یونٹ وصول کیا جا تا ہے۔اسی طرح ’’امت‘‘ کو بلدیہ ٹاؤن سیکٹر 8 کے بل کی ایک نقل بھی ذرائع سے موصول ہوئی جس میں آئی بی بلدیہ سیکٹر 8سی ‘سعید آباد گرڈ بلدیہ کا پتہ درج تھا ‘مذکورہ بل پلاٹ نمبر 7 سیکٹر 4 ای بلدیہ ٹاؤن کے پتے پر محمد منور کے لیئے بنایا گیا تھا ‘اس بل میں سابقہ اور موجودہ کوئی ریڈنگ ظاہر نہیں ‘جبکہ یونٹس 96ظاہر کیئے گئے ہیں ‘اسی طرح تفصیلات میں بھی کچھ بیان نہیں کیا گیا ۔بل کے مشاہدے پر پتا لگتا ہے کہ بل کی ہر ماہ درستگی میٹر انچارج محمد عمران الحق کی جانب سے کی جاتی ہے جو ہر ماہ بل پر ایک ہزار روپے کی مہر لگاکر صارف کو دیتے ہیں ‘بل پر اکاؤنٹ نمبر 0400025116765 ‘کنزیومر نمبر HC000396بتائی گئی ہے ۔یہ بل بھی ڈائریکٹ لیا جاتا ہے کیونکہ یہاں بھی ٹھیکے داری نظام کے تحت بجلی کی ترسیل شروع کی گئی تھی ۔’’امت‘‘ کو ذرائع نے بتایا کہ کراچی میں پھیلائے گئے ان غیر قانونی نیٹ ورک کو چھپانے کے لئے محض ایک نیٹ ورک کو منظر عام پر محض اس لئے لایا گیا کیونکہ احسن آباد میں ہوئے حادثے کی ذمہ داری اس پر ڈالی جا سکے ۔ معلوم ہوا ہے کہ نیپرا نے آر الیکٹرک کو نوٹس جاری کر دیا ہے جس میں آر الیکٹرک کی انتظامیہ کو ہدایت کی گئی کہ وہ فوری طور پر اس نیٹ ورک کو بند کر دیں ۔ ذرائع نے بتایا کہ آر الیکٹرک کا نیٹ ورک تاحال بند نہیں کیا جاسکا ہے اور کے الیکٹرک کی جانب سے اس کی تینوں پی ایم ٹیز کو بجلی کی فراہمی جاری ہے ۔

Comments (0)
Add Comment