نئی دلی(امت نیوز)تحریک انصاف کی حکومت نے گردوارہ دربار صاحب کرتا رپور تک رسائی دینے کا اعلان کر کےکروڑوں بھارتی سکھوں کےدلوں میں دبے ارمان جگا دیئے ہیں۔بھارتی کرکٹر اور کانگریس کے رہنما نوجوت سنگھ سدھو نے بھارتی حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ کرتا پور کا راستہ کھولنے کیلئے پاکستان کی جانب سے اٹھائے گئے پہلے قدم کے جواب میں آگے بڑھے اور مذہب کے نام پر سیاست نہ کرے ۔بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق گرودوارہ دربار صاحب کرتار پور شکر گڑھ کے گاؤں کوٹھے پنڈ میں دریائے راوی کے مغربی جانب واقع ہے جہاں سکھ مت کے بانی بابا گرو نانک دیو جی نے زندگی کے آخری ایام گزارے تھے۔ان کی یہیں پر سمادھی و قبر بھی بنی ۔راوی کے مشرقی جانب خاردار تاروں والی بھارتی سرحد ہے۔ضلع نارووال میں بھارتی سرحد سے چند کلو میٹر کی دوری کے فاصلے پر واقع ہے۔بھارتی سکھ سرحد پار سےگرودوارہ کو دیکھنے کیلئے دوربینوں کا استعمال کرتے ہیں، اس حوالے سے بی ایس ایف نے خصوصی طور پر درشن ستھل بنا رکھے ہیں تاکہ سکھ اس مقام کے واضح طور پر درشن کر سکیں۔بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق یہ گردوارہ کھیتوں کے بیچوں بیچ واقع ہےاورگردوارہ کی سفید عمارت کسی پرندے کی مانند لگتی ہے۔گرودوارے کی عمارت سے باہر کنواں گرو نانک سے منسوب کیا جاتا ہے۔اسی وجہ سے اسے’’سری کُھو صاحب‘‘ کہا جاتا ہے۔ کنویں کے ساتھ ہی بم کا ایک ٹکڑا بھی شیشے کے شو کیش میں نمائش کے لیے رکھا ہے جس کے مطابق یہ بم بھارتی فضائیہ نے 1971 کی جنگ کے دوران پھینکا تھا جسے کنویں نے اپنی گود میں لے لیا اور دربار تباہ ہونے سے محفوظ رہا۔ گردوارے کے داخلی دروازے کے باہر سر ڈھانپنے کی ہدایت کی جاتی ہے۔ملک کے دیگر گردواروں کی طرح یہاں داخل ہونے کے لیےکسی کی مذہبی شناخت نہیں پوچھی جاتی۔ گردوارے کے خدمت گاروں میں سکھ اور مسلمان دونوں شامل ہیں اور ہر آنے والے کو لنگر بھی کھلایا جاتا ہے۔بی بی سی کے نمائندہ کے مطابق وہ جب گردوارہ دربار صاحب پہنچا تو دیکھا کہ دالان میں قبر کے قریب ایک نوبیاہتا جوڑا فاتحہ پڑھ رہا تھا کہ جبکہ سکھ نوجوان سمادھ کے قریب کھڑے تھے۔ مقامی افراد کے مطابق مسلمان اس مقام پر باقاعدگی سے فاتحہ خوانی کے لیے آتے ہیں۔ بابا گرو نانک کو مقامی مسلمان برگزیدہ ہستی سمجھتے ہیں جبکہ سکھ انہیں اپنے مذہب کا بانی سمجھتے ہیں۔ گردوارے کی مرکزی عمارت کے کشادہ صحن میں لنگر خانہ اور یاتریوں کے قیام کیلئے کمرے ہیں۔ گردوارہ دربار صاحب کی قدیم عمارت دریائے راوی میں آنے والے سیلاب میں تباہ ہوگئی۔موجودہ عمارت1920 سے 1929 کے درمیان ایک لاکھ35ہزار600 روپے کی لاگت سے مہاراجہ پٹیالہ سردار پھوبندر سنگھ نے دوبارہ تعمیر کروائی تھی۔1995 میں پاکستان نے بھی اس کی دوبارہ مرمت کی۔ تقسیم ہند کے وقت یہ گردوارہ پاکستان کے حصے میں آیا۔تقریباً 56 سال تک گردوارہ ویران رہا۔کئی دہائیوں کے کشیدہ تعلقات کے باعث گردوارہ بھی یاتریوں سے محروم رہا۔ادھر بھارتی کرکٹراورکانگریسی رہنما نوجوت سنگھ سدھونے ضلع نارووال میں واقع کرتارپوردربار صاحب کا راستہ کھولنے پروزیراعظم پاکستان عمران خان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ خان کے جذبہ خیرسگالی پر سوال نہیں اٹھانا چاہیے۔میری بھارتی وزیر خارجہ سے درخواست ہے کہ پاکستان ایک قدم چلا ہے تو بھارت بھی قدم اٹھائے۔بھارتی سکھوں نے پاکستان سے متعلق بھارتی پالیسی میں کبھی مداخلت نہیں کی تاہم مذہب کے معاملے پرسیاست کرنا ٹھیک نہیں۔