کراچی ( رپورٹ :اقبال اعوان ) نقیب قتل کیس میں سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کو بچانے کے لئے اس کے 13 مفرور ساتھیوں کی گرفتاری میں ٹال مٹول سے کام لیا جانے لگا۔تفتیشی پولیس 5 ماہ گزرنے کے باوجود ان میں سے ایک کو بھی گرفتار کرکے عدالت میں پیش نہیں کرسکی ہے۔راؤ انوار پورے واقعے کا ملبہ ان مفروروں پر ڈال کر ضمانت پر رہا ہوچکے ہیں۔ کسی ایک کی گرفتاری کی صورت میں کیس نیا رخ اختیار کرلے گا۔ تحقیقاتی ٹیمیں رپورٹ دے چکی ہیں کہ مفرور شوٹرز نے راؤ انوار کی ہدایت پر نقیب سمیت دیگر افراد کو ماورائے عدالت قتل کیا اور اغوا برائے تاوان سمیت دیگر غیر قانونی کاموں کی سرپرستی کرکے بھتہ خوری میں مصروف رہے ہیں۔ان کی گرفتار ی سے اصل حقائق سامنے آئیں گے۔ ان مفرور پولیس افسران و اہلکاروں کو نوکریوں سے برخاست کردیا گیا لیکن ان کی عدم گرفتاری کے باعث کیس کمزور ہوا اور راؤ انوار کو ضمانت پر رہائی مل گئی۔ حیرت کی بات ہے کہ ان مفروروں کا نام ای سی ایل میں ڈالا گیا نہ شناختی کارڈ بلاک ہوئے اور نہ ہی بینک اکائونٹ منجمد کئے گئے۔ نقیب کو دو ساتھیوں کے ساتھ مفرور علی اکبر نے اٹھایا۔ انار خان اور دیگر مفروروں نے سچل تھانے میں رکھا۔ شعیب شوٹر نے مفرور امان اللہ کے حوالے کیا۔ وہاں دیگر مفروروں نے انہیں قتل کیا۔ اس طرح ان مفرور افسران و اہلکاروں پر معاملہ رکا ہوا ہے۔ یہ بات حیرت انگیز ہے کہ گزشتہ 10 سال کے دوران جب راؤ انوار ضلع ملیر کے ایس ایس پی رہے ، وہ خیر محمد اور فیصل محمود کے نام پر موبائل فون کی سم کھلوا کر نمبرز رکھے تھے اور مفرور ہونے کے بعد تمام نمبرز بند ہوگئے۔ اس حوالے سے رابطے پر تفتیشی افسر ایس ایس پی ویسٹ ڈاکٹر رضوان نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ مفرور13 ملزمان کی گرفتاری کے لئے چھاپے مارے جارہے ہیں۔انہوں نے اعترف کیا کہ ملزمان منظم انداز میں زیر زمین چلے گئے ہیں اس لئے ان کی گرفتاری میں مشکلات پیش آ رہی ہیں۔ انہوں نے کہاگرفتاری کے بعد نام ایسی ایل میں ڈالے جائیں گے، بینک اکاؤنٹ منجمد اور شناختی کارڈ بلاک کئے جائیں گے۔ ابھی زیر دفعہ 512 کے تحت مفروری کا چالان جمع کرایا گیا ہے اور ایف آئی اےکو بھی کوائف دیئے ہیں۔ کسی کے پاس مفروروں کے حوالے سے شواہد ہیں تو بتائے۔ جبکہ کراچی میں گرینڈ جرگے کے دوران ان مفرور افسران و اہلکاروں کی تصاویر لگا کر نام لکھ کر ساتھ قاتل تحریر کیا گیا تھاتا کہ لوگ ان کو جان جائیں۔ رابطہ کرنے پر گرینڈ جرگے کے ممبر خلیل الرحمان محسود کا کہنا تھا کہ ریاستی ادارے ان مفرور افسران و اہلکاروں کو گرفتار کریں گے تب راؤ انوار شکنجے میں آئے گا۔ ایسا لگتا ہے کہ پولیس جان بوجھ کر ان کو گرفتار نہیں کررہی ہے۔ گرینڈ جرگے کے ممبر سفیر اللہ محسود کا کہنا تھا لگتا ہے کہ پولیس والے پیٹی بھائیوں کو بچا رہے ہیں۔ ان کو بعض اطلاعات تھیں کہ مفرور اہلکار کراچی میں اپنے ساتھیوں سے رابطے میں ہیں اور پولیس ان کو گرفتار کرنے سے گریز کررہی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ محرم کے بعد جب گرینڈ جرگے کا احتجاج کے حوالے سے لائحہ عمل بنے گا تب ان مفرور اہلکاروں کی گرفتاری کے لئے کراچی سمیت ملک بھر میں خصوصی مہم چلائیں گے اور ان کو پکڑوا کر کیس پایہ تکمیل تک لے کر جائیں گے۔ واضح رہے کہ ان مفرور 13 افسران و اہلکاروں نے کراچی میں اپنی رہائش رکھی تھی۔ ان میں سابق ایس ایچ او شاہ لطیف ٹاؤن سب انسپکٹر امان اللہ مروت گلستان سوسائٹی لانڈھی میں رہتا تھا اور اسکا آبائی گاؤں کوٹ کشمیر و ضلع لکی مروت ہے۔ سائٹ سپرہائی وے تھانے کی عباس ٹاؤن چوکی کا انچارج اے ایس آئی علی اکبر ملاح سی بی برار سوسائٹی میں رہتا تھا اور آبائی گاؤں ماروی گارڈن قاسم آباد حیدرآباد ہے۔ اس طرح سابق ایس ایچ او سہراب گوٹھ سب انسپکٹر شعیب شیخ عرف شعیب شوٹر اولڈ سٹی ایریا کراچی کا رہائشی ہے اور یہ مستقل پتہ بھی ہے۔ سپاہی ریاض احمد غوث پاک روڈ کورنگی کا رہائشی ہے اور آبائی علاقہ میرپور خاص ہے۔ ہیڈ کانسٹیبل محسن عباسی لیبر کالونی لانڈھی میں رہتا تھااور آبائی گاؤں چکوال ہے۔ اے ایس آئی خیر محمد کوٹری جامشورو سے تعلق رکھتا ہے۔ سپاہی رئیس عباس عمار یاسر سوسائٹی ملیر کا رہائشی ہے اور آبائی گاؤں خیرپور ہے۔ ہیڈ کانسٹیبل صداقت حسین لانڈھی لیبر کالونی میں رہتا تھا اور آبائی پتہ چکوال کا ہے۔ سپاہی راجہ شمیم پاور ہاؤس لانڈھی میں رہتا تھا اور مستقل پتہ بھی یہی ہے۔ سب انسپکٹر انار خان جو سابق ایس ایچ او سائٹ سپر ہائی وے تھانے میں تعینات تھا لاسی گوٹھ کراچی میں رہتا تھا اور مستقل پتہ ملیر کراچی کا ہے۔ اے ایس آئی فیصل محمود جہلم سے تعلق رکھتا ہے۔ اے ایس آئی گدا حسین گولیمار کراچی کا رہائشی ہے اور لاڑکانہ آبائی شہر ہے۔ سپاہی عمران رضا انچولی کراچی کا رہائشی ہے۔ پولیس یہ دعوی کررہی ہے کہ ان مفروروں کے عارضی اور مستقل پتے پر چھاپے مارے جارہے ہیں۔