کراچی ( رپورٹ / صفدر بٹ ) محکمہ صحت سندھ کے ایڈیشنل سیکریٹری ٹیکنیکل و ایڈمن کی سربراہی میں لاڑکانہ میل اسکول آف نرسنگ میں مبینہ طور پر 12 جعلی داخلوں کی تحقیقات کرنے والی کمیٹی نے اسکول کے وائس پرنسپل ریاض گوپانگ،کلرک احمد بخش، پیرا میڈیکل ٹیوٹر اختر علی کھوکھر اور چپڑاسی نور محمد سمیت تمام درخواستگزاروں جن میں فاروق بشیر ، عبدالصمد، مختاراحمد اور نوید احمد سمیت تمام 12طلبا کو تمام متعلقہ ریکارڈ کے ہمراہ طلب کر لیا ہے۔ذرائع کا کہنا ہے کہ لاڑکانہ میل اسکول آف نرسنگ میں ڈائریکٹوریٹ آف نرسنگ اور اسکول انتظامیہ کی مبینہ طور پر ملی بھگت سے تعلیمی سیشن 2017میں لاکھوں روپے رشوت وصولی کے عوض 12طلبا کو میرٹ کے خلاف داخلے دیئے گئے تھے جس کا علم سالانہ امتحانات سے قبل اس وقت ہوا جب لاڑکانہ نرسنگ اسکول کی جانب سے طلبا کے انرولمنٹ کارڈ کے حصول کیلئے نرسنگ بورڈ کو بھجوائی جانے والی فہرست کی اسکروٹنی کے دوران 12 طلبا کی پاکستان نرسنگ کونسل سے حاصل کردہ پری رجسٹریشن تو موجود تھی لیکن ان کے ایڈمیشن لیٹر موجود نہیں تھے۔ لاڑکانہ اسکول آف نرسنگ کی جانب سے 4 طلبا کے ایڈمیشن لیٹر بورڈ کو بھجوائے گئے جنہیں گزشتہ تاریخوں میں جاری کیا گیا تھا ، نرسنگ بورڈ نے ان 4طلبا کو انرولمنٹ کارڈ جاری کرتے ہوئے امتحان میں شرکت کی اجازت دے دی جبکہ 8طلبا کے ایڈمیشن لیٹر موصول نہ ہونے پر نرسنگ بورڈ نے انہیں امتحان میں شرکت کی اجازت نہیں دی جس پر امتحان میں شرکت سے محروم رہ جانے والے طلبا نے سیکریٹری صحت سندھ کو ارسال کئے جانے والے لیٹر میں موقف اختیار کیا ہے کہ ڈائریکٹر نرسنگ سندھ حبیب اللہ سومرو کے ایجنٹ مشرف چنہ نے جو کہ ڈائریکٹر نرسنگ کے گھر میں ان کے ساتھ رہتا ہے نے 12 لڑکوں سے فی کس ایک لاکھ روپے وصول کرکے لاڑکانہ میل اسکول میں داخؒلہ کرایا تھا۔ ڈائریکٹر نرسنگ نے مشرف چنہ سے ملنے کا کہا ، ہم نے اسکول پرنسپل ریاض گوپانگ سے کہا تو انہوں نے بھی مشرف چنہ کا نام لیا۔ جب مشرف چنہ سے ملے تو اس نے انرولمنٹ کارڈ کے عوض مزید 80 ہزار روپے فی کس دینے کی ڈیمانڈ کر دی جس پر 4 طلبا نے 80 ہزار روپے کے حساب سے رقم ادا کر دی جس کے بعد ڈائریکٹر نرسنگ حبیب اللہ سومرو کی جانب سے ان طلبا کے ایڈمیشن لیٹر پرانی تاریخوں میں نکال کر دے دیئے۔ درخواست میں چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ ،نگراں وزیر اعلیٰ سندھ معاملے کا نوٹس لینے اور ان کا مستقبل تاریک ہونے سے بچانے کی اپیل کی تھی جس پر محکمہ صحت نے انکوائری کمیٹی قائم کی تھی جو معاملے کی تحقیقات کر رہی ہے۔