259 مزدور جلانے والے 5 متحدہ دہشت گرد انجام تک نہ پہنچائے جاسکے

کراچی (رپورٹ : سید علی حسن ) پاکستان کے نائن الیون اور سانحہ بلدیہ فیکٹری میں 259 مزدور زندہ جلانے والے 5 متحدہ دہشت گرد 6 برس بعد بھی منطقی انجام تک نہ پہنچائے جاسکے۔مرکزی ملزم حماد صدیقی سمیت متحدہ کے 2 دہشت گرد تاحال مفرور ہیں جب کہ دیگر ملزمان کے تاخیری حربوں اور جے آئی ٹی رپورٹ پر عملدرآمد نہ ہونے کی وجہ سے مقدمہ التوا کا شکار ہے ۔جل کر راکھ ہونے والے259جسموں سے اٹھتا دھواں فضا میں انصاف کا طلب گار ہے۔بیواؤں اور یتیموں کی چیخیں آج بھی فلک کو چیرتی ہیں۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایک دو نہیں درجنوں بے گناہوں کے خون کا حساب کس سے لیا جائے گا؟ کیس کی فائلوں پر پڑنے والی گرد کی تہیں موٹی ہوتی جارہی ہیں۔ تحریک انصاف حکومت میں متحدہ کی شمولیت کے بعد لواحقین کو اب یہ خدشات بھی ستارہے ہیں کہ ملزمان بچ نکلیں گے۔تفصیلات کے مطابق سانحہ بلدیہ فیکٹری کیس 6سال گزر جانے کے باوجود التوا کا شکار ہے ،سانحہ میں جاں بحق ہونے والے افراد کے لواحقین انصاف کے منتظر ہیں ، مقدمہ انسداددہشت گردی کی خصوصی عدالت میں زیر سماعت ہیں جہاں گواہوں کے بیانات قلمبند کئے جارہے ہیں ، مقدمہ میں استغاثہ کی جانب سے 720گواہوں کی فہرست عدالت میں جمع کرائی گئی تھی جس میں سے 115 گواہوں کے بیانات ریکارڈ کئے جاچکے ہیں ، گواہوں میں سانحہ میں جاں بحق ہونے والوں کے لواحقین ، پوسٹ مارٹم کرنے والے ڈاکٹرز ، فیکٹری مالکان ، پولیس و ایف آئی اے اہلکار، ملزم رحمن بھولا کا اعترافی بیان ریکارڈ کرنے والے مجسٹریٹ سمیت دیگر افراد شامل ہیں ۔مقدمہ میں متحدہ کا بلدیہ سیکٹر انچارج رحمن بھولا اور زبیر چریا گرفتار ہیں جبکہ متحدہ رہنما رؤف صدیقی ، علی محمد ، ارشد محمود ،فضل احمد جان ، شاہ رخ لطیف ،عمر حسن قادری اور ڈاکٹر عبدالستار عبوری ضمانت پر رہا ہیں ، مقدمہ میں متحدہ کے حماد صدیقی اور علی حسن قادری مفرور ہیں ۔ ذرائع نے بتایا کہ مقدمہ میں تاخیر کی وجہ مرکزی ملزم حماد صدیقی کی عدم گرفتاری جے آئی ٹی رپورٹ پر عمل درآمد نہ ہونے اور دیگر ملزمان کے تاخیری حربوں کے باعث مقدمہ التوا کا شکار ہے ، عدالت کی جانب سے حماد صدیقی کے کئی ریڈ وارنٹ جاری کئے گئے تاہم تفتیشی حکام ملزم کو بیرون ملک سے گرفتار کرکے ملک واپس لانے میں ناکام ر ہے ، ملزم کی گرفتاری سے مزید شواہد حاصل کئے جاسکتے ہیں ۔ ذرائع نے بتایا کہ مقدمہ تاخیر ہونے کی ایک وجہ جے آئی ٹی پر مکمل طور پر عمل درآمد نہ ہونا بھی ہے ، جے آئی ٹی کےسامنے ملزم رحمن بھولا نے حماد صدیقی کے حکم پر فیکٹری کو آگ لگانے سمیت سنسنی خیز انکشافات کئے تھے تاہم تفتیش کاروں کی سستی کے باعث اسے بہتر طریقے سے فالو نہیں کیا جاسکا جس کے باعث نامزد ملزمان نے عبوری ضمانتیں حاصل کرلی ، اس کے علاوہ عبوری ضمانتوں پر رہا ملزمان کی جانب سے تاخیری حربوں کے باعث بھی مقدمہ تاخیر کا شکار ہوا ، ملزمان کی جانب سے مختلف اوقات میں مختلف درخواستیں عدالت میں داخل کی گئیں ، اس کے علاوہ ایک ملزم علی حسن قادری کی درخواستیں نمٹنے میں 6ماہ کا عرصہ گزرا ،جو عبوری ضمانت حاصل کرنے کے بعد مفرور ہوگیا ہے ۔ ریکارڈ کے مطابق سائٹ بی کے علاقے میں واقع علی انٹر پرائز گارمنٹس فیکٹری میں 11ستمبر2012کو آگ لگی تھی جو کہ اتنی شدید تھی کہ فیکٹری کو لپیٹ میں لے لیا دوسرے دن 12ستمبر کو فائر بریگیڈ نے آگ پر قابو پا لیا تھا جس کے بعد پتہ چلا کہ فیکٹری میں مزدوروں کی آمدورفت کے لیے 4گیٹ تھے جس میں فیکٹری مالکان نے 3گیٹ بند کر دئیے ہوئے تھے 1گیٹ سے مزدوروں کی نقل و حرکت ہوتی تھی لہذا آگ لگنے اور دھواں سے فیکٹری میں موجود 259افراد جاں بحق ہو گئے جن میں خواتین بھی شامل تھیں ، 12ستمبر کی شام کو تھانے کے ایس ایچ او نے سرکار کی مدعیت میں فیکٹری مالکان عبدالعزیز بھائلہ ،شاہد بھائلہ، ارشد بھائلہ ،فیکٹری کی انتظامیہ محمد منصور ،فضل احمد ،ارشد محمود علی محمد اور شاہ رخ سمیت دیگر کے خلاف درج کیا تھا جس کے بعد سندھ ہائی کورٹ کے حکم پر مقدمہ کی دوبارہ تحقیقات کی گئی ، اسی دوران پہلے زبیر عرف لالہ عرف چریا کی گرفتاری عمل میں آئی جس کے بعد 14دسمبر 2016کو ایف آئی اے نے اہم ملزم عبدالرحمن عرف بھولا کو گرفتار کر کے پولیس کے ہمراہ عدالت میں پیش کیا ملزم عبدالرحمن عرف بھولا جیل میں ہے ملزم عبدالرحمان عرف بھولا نے دوران تفتیش بتایا کہ متحدہ قومی موومنٹ کے انچارج اور کے ٹی سی کے رکن نے فیکٹری مالکان سے 25کروڑ روپے بھتہ مانگا گیا اور فیکٹری میں شراکت داری کا مطالبہ کیا فیکٹری مالکان نے انکار کر دیا تھا حماد صدیقی نے انہیں سبق سکھانے کے لیے ہدایات جاری کی کہ فیکٹری کو آگ لگا دو جس کے بعد زبیر چریا و دیگر کے ساتھ آگ لگائی ۔ جس کے بعد ملزم عبدالرحمن عرف بھولا نے جوڈیشل مجسٹریٹ کے سامنے اعترافی بیان ریکارڈ کرایا ۔ اعترافی بیان میں رحمن بھولا نے بتایا کہ میں نے 1992 میں متحدہ میں شمولیت اختیار کی ‘متحدہ کے سیکٹر انچارج کے کہنے پر پارٹی پالیسی کے مطابق خون خرابہ کرنا ،بھتہ خوری، گاڑیاں جلانا ،ہوائی فائرنگ کرنا، خوف و ہراس پھیلانا شروع کیا اس دوران 5سے 7افراد قتل بھی کئے ہیں‘ مختلف سیاسی جماعتوں کے کارکن ان میں شامل ہیں میری ٹیم کے لوگوں نے درجنوں افراد کو قتل کیا یہ تمام متحدہ کی پالیسی تھی ‘جے آئی ٹی کو بتا چکا ہوں 2009میں کے ٹی سی ممبران عرفان خان، زاہد اور حنیف میمن کی سفارش پر مجھے بلدیہ کا سیکٹر ممبر بنایا گیا اسی دوران زکوٰۃ فطرہ کی مدمیں کروڑوں روپے نائن زیرو پر جمع کرائے‘ جولائی2012میں مجھے کے ٹی سی انچارج حماد صدیقی نے نائن زیرو بلایا اور بتایا کہ سیکٹر انچارج اصغر بیگ کو ہٹا کر تمہیں لگا رہا ہوں آپ کو ٹاسک دے رہا ہوں جو ہر حال میں پورا کرنا ہے اور بتایا کہ بلدیہ ٹاؤن میں ایک فیکٹری ہے علی انٹر پرائزیز کے نام سے ان سے 25کروڑ روپے بھتہ مانگنا ہے اس کے مالکان سے جاکر ملا اوربتایا کہ حماد صدیقی نے بھیجا ہے 25کروڑ بھتہ لینا ہے‘ انہوں نے سوچنے کی مہلت مانگی کچھ دن بعد فیکٹری گیا ‘جہاں مالکان نے کہا کہ ایک کروڑ سے زیادہ نہیں دے سکتے‘میں نے کہا کہ فیکٹری میں شراکت داری کر دیں ورنہ فیکٹری میں آگ لگا دی جائے گی یہ کہا اور چلا آیا۔ منصور سے رابط کیا ’ میں اور زبیر چریا نائن زیرو گئے پوری تفصیل بتائی کہ مالکان ایک کروڑ دے رہے ہیں‘ حماد صدیقی نے غصہ میں کہا کہ فیکٹری میں آگ لگا دو ۔ زبیر کو کہا کہ کیمکل کی ذمہ داری تمہاری ہے‘11ستمبر 2012کو زبیر چریا سیکٹر آفس میں آیا اور کہا کہ میں نے فیکٹری میں آگ لگانے کا بندوبست کرلیا ہے جس کے بعد فیکٹری کو کیمیکل کے ذریعے جلا دیا گیا ‘میں نے فون کرکے حماد صدیقی کو بتایا کہ کام ہوگیا ہے حماد صدیقی نے کہا کہ ایم پی اے ایم این اے کو لے کر فیکٹری میں امدادی کام کریں‘حماد صدیقی نے امدادی کاموں میں حصہ لینے کیلئے کہا تھا 4دن تک کیمپ لگایا اس کے بعد حماد صدیقی اور رؤف صدیقی نے چار سے پانچ کروڑ روپے لئے اور کیس نمٹانے کا کہا‘حماد صدیقی نے کہا تھا کہ معاملے کو دبانے کیلئے پارٹی کا اثر وسوخ استعمال کیا جائے گااور رؤف صدیقی نے دباؤ ڈال کر مالکان کے خلاف مقدمہ درج کرایاتھا۔واضح رہے کہ یہ وہی مقدمہ ہے جو پہلے پولیس نے فیکٹری مالکان کے خلاف زیر دفعہ 302سمیت دیگر دفعات کے تحت درج کیا تھا جس میں فیکٹری مالکان کو بلیک میل کیا جا رہا تھا مالکان نے بھتہ کی رقم ادا کر دی تھی بھتے کی رقم علی حسن قادری اور عمر حسن قادری کے ذریعے لی گئی تھی ، عبدالرحمن عرف بھولا کے بیان کے بعد روف صدیقی سے تفتیش کی گئی تاہم بعد ازاں پولیس نے عدالت میں جمع کرائے گئے چالان میں متحدہ کا بلدیہ سیکٹر انچارج رحمن بھولا ، زبیر چریا ، علی محمد ، ارشد محمود ،فضل احمد جان ، شاہ رخ لطیف ،عمر حسن قادری ، علی حسن قادری اور ڈاکٹر عبدالستار کو بطور ملزم نامزد کیا گیا اور متحدہ کے حماد صدیقی کو مفرور قرار دیا گیا ۔اس کے علاوہ چالان میں رؤف صدیقی کا نام بطور ملزمان نہیں لکھا جس پر پراسیکیوٹر نے اعتراض اٹھایا اور عدالت میں رؤف صدیقی کو بطور ملزم پیش ہونے کی درخواست جمع کرائی جو منظور کی گئی تھی ،مقدمہ میں فیکٹری مالکان کو گواہوں میں شامل کیا گیا ہے ۔ اس وقت انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت میں زیر سماعت ہیں جہاں گواہوں کے بیانات قلمبند کئے جارہے ہیں ، لواحقین بھی گواہوں میں شامل ہیں جو پیشی کے موقع پر آبدیدہ و زار و قطار روتے ہوئے اپنے بیانات ریکارڈکراتے ہیں ، لواحقین کو خدشات ہیں کہ متحدہ کے حکومت میں شامل ہونے سے ملزمان مقدمہ سے بچ نکلیں گے ،لواحقین نے مطالبہ کیا ہے کہ ہمیں انصاف فراہم کرتے ہوئے ملوث دہشت گردوں کو سخت سے سخت سزا دی جائے۔

Comments (0)
Add Comment