لندن(امت نیوز؍مانیٹرنگ ڈیسک) مشرف آمریت کے دور میں پارٹی کو متحد کر کے مزاحمت کی علامت بننے اور تاریک ایام میں نواز لیگ کیلئے روشن ستارہ بن کر آسمانِ سیاست پر جگمگانے والی روشنی منگل کو لندن میں بجھ گئی۔سابق وزیر اعظم نواز شریف کی اہلیہ بیگم کلثوم نواز 68برس کی عمر میں لندن کے ہارلے اسٹریٹ کلینک میں ایک سال سے زیادہ عرصہ زیر علاج رہنے کے بعد انتقال کر گئیں۔ انا للہ ِ و انا الیہ راجعون ۔ مرحومہ کی میت جمعرات کو دوپہر ایک بجے ریجنٹ مسجد لندن میں نماز جنازہ ادائیگی کے بعد وطن روانہ کردی جائے۔ ان کی میت ہیتھرو ایئر پورٹ سے پی آئی اے کی پرواز پی کے 758سے جمعہ کو لاہور پہنچے گی اور اسی روز جمعہ کو ان کی تدفین جاتی امرا لاہور میں ہو گی ۔سابق وزیر اعظم نواز شریف ، بیٹی مریم نواز اور داماد کیپٹن ریٹائرڈ محمد صفدر کو اڈیالہ جیل میں بیگم کلثوم نواز کے سانحہ ارتحال سے آگاہ کرنے کے بعد تینوں کو کانفرنس روم میں پہنچایا گیا ۔والدہ کے انتقال کی خبر ملنے پر مریم کی طبیعت بھی خراب ہو گئی۔ نواز لیگی صدر شہباز شریف تدفین کے معاملے پر مشاورت کیلئے اڈیالہ جیل پہنچے تو رقت آمیز مناظر دیکھے گئے ۔ مریم نواز چچا کے گلے لگ کر دھاڑیں مار مار کر روتی رہیں اور اس موقع پر سابق وزیر اعظم نواز شریف سمیت موجود ہر فرد آبدیدہ تھا اور سب ایک دوسرے کو تسلیاں دیتے رہے۔شہباز شریف نے ملاقات کے دوران نواز شریف کی موبائل پر حسین نواز سے گفتگو کرائی ۔نواز شریف نے شہباز شریف کو کلثوم نواز کی تدفین کے بہترین انتظامات کرنے کی ہدایت کی ۔نواز لیگی صدر میت لانے کیلئے لندن روانہ ہو گئے ہیں۔ تفصیلات کے مطابق سابق وزیر اعظم اور نواز لیگ کے تا حیات قائد نواز شریف کی اہلیہ بیگم کلثوم نواز طویل علالت کے بعد 68 برس کی عمر میں منگل کو ہارلے اسٹریٹ کلینک لندن میں انتقال کر گئیں۔انا للہ ِ و انا الیہ راجعون ۔ مرحومہ گلے کے کینسر کے مرض میں مبتلا ہونے کی وجہ سے تقریباً ایک سال 25دن سے لندن کے ہارلے اسٹریٹ کلینک میں زیر علاج تھیں ۔ پیر کی شب اچانک طبیعت زیادہ بگڑنے پر انہیں ایک بار وینٹی لیٹر پر منتقل کیا گیا تھا۔ ہارلے اسٹریٹ کلینک کے ذرائع کا کہنا ہے کہ بیگم کلثوم نواز کے پھیپھڑوں کا مسئلہ سنگین ہو گیا تھا۔ انتقال کے وقت دونوں بیٹے حسین نواز ،حسن نواز،چھوٹی بیٹی اسما اور سمدھی و سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار بھی اسپتال میں موجود تھے۔بیگم کلثوم نواز طویل علالت کے دوران بے ہوشی کی حالت میں رہیں۔لندن کے اسپتال میں منتقل کئے جانے کے بعد سابق وزیر اعظم نواز شریف ،بیٹی مریم،بیٹے حسین و حسن نواز اسپتال میں مسلسل موجود رہ کر تیمار داری کرتے رہے۔ دوران علاج انہیں ایک دو بار ہوش بھی آیا اور انہوں نے اسپتال میں موجود اہلخانہ سے بات چیت بھی کی جس سے ان کی حالت میں بہتری کی توقعات بڑھ گئی تھیں تاہم زندگی نے ان سے وفا نہ کی اور وہ دوران علاج ہی منگل کو خالق حقیقی سے جا ملیں۔انتقال کی تصدیق مرحومہ کے دیور اور نواز لیگ کے صدر شہباز شریف نے اپنی ٹویٹ کے ذریعے کی ۔خاندانی ذرائع کے مطابق مرحومہ کی میت جمعہ کو پاکستان لائی جائے گی اور تدفین جاتی امرا میں کی جائے گی۔ذرائع کا کہنا ہے کہ میت پاکستان لانے سے قبل لندن میں برطانیہ کی تمام تر قانونی کارروائی مکمل کی جائے گی۔مرحومہ کی میت لندن کے ریجنٹ پارک علاقے میں مسجد کے سرد خانے منتقل کر دی گئی ہے۔سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا کہنا ہے کہ میت وطن واپس لانے سے پہلے لندن کی ریجنٹ پارک مسجد میں جمعرات کو ظہر کے بعد نماز جنازہ ادا کی جائے گی ۔ لندن کی جامع مسجد ریجنٹ میں نماز جنازہ میں مرحومہ کے دونوں بیٹے، خاندان کے افراد، لندن میں پاکستانی کمیونٹی کے لوگ شرکت کریں گے۔نماز جنازہ کے بعد میت پی آئی اے کی پرواز پی کے 758 کے ذریعے جمعہ کی صبح لاہور پہنچے گی اور نماز جنازہ جمعہ کے بعد انہیں اسی روز جاتی امرا میں سپرد خاک کر دیا جائے گا جہاں شریف خاندان کے سربراہ میاں محمد شریف اور ان کے چھوٹے بیٹے عباس شریف کی قبریں پہلے ہی موجود ہیں۔میت لانے کیلئے نواز لیگ کے صدر شہباز شریف لندن روانہ ہوگئے ہیں۔کلثوم نواز کی میت کے ساتھ خاندان کے 10افراد بھی پاکستان آئیں گے تاہم حسن اور حسین نواز کی آمد کا فیصلہ نہیں کیا جا سکا ہے ۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ میت کی پاکستان منتقلی میں 3 سے 4 دن لگ سکتے ہیں۔بیگم کلثوم نواز 17 اگست 2017 کو علاج کیلئے اس وقت لندن گئی تھیں جب وہ اپنے شوہر کو نا اہل قرار دیے جانے کے بعد ضمنی الیکشن میں ان کے حلقہ این اے120 کی نشست کیلئے امیدوار تھیں ۔لندن پہنچنے کے بعد 22اگست2017 کو انہیں کینسرکا مرض ہونے کی تشخیص ہوئی اور کئی بار انہیں کیمو تھراپی کے عمل سے گزارا گیا ۔یکم ستمبر 2017 کو ان کے گلے کی پہلی کامیاب سرجری ہوئی تھی اور 20 ستمبر تک ان کا تیسری بار آپریشن ہوا۔سرجری کی وجہ سے ان کی بعد کلثوم نواز کی طبیعت کچھ بہتر ہوئی تھی تاہم رواں سال میں ان کی طبیعت ایک مرتبہ پھر خراب ہو گئی تھی۔ رواں سال جون میں انہیں اچانک دل کا دورہ پڑنے کے باعث انتہائی نگہداشت وارڈ میں وینٹی لیٹر پر منتقل کر دیا گیا۔سابق وزیر اعظم نواز شریف اور بیٹی مریم عیادت اور ان کے ساتھ عید منانے لندن گئے تھے ۔کلثوم نواز کے انتقال کے بعد تدفین کے انتظامات کے بارے میں مشاورت کیلئےنواز لیگ کے صدر شہباز شریف اوردیگر نے اڈیالہ جیل میں نوازشریف ، مریم نواز اور کیپٹن ریٹائرڈ محمد صفدر سے ملاقات کی ۔ملاقات میں مریم نواز کی بیٹیاں اور داماد بھی شامل تھے۔ملاقات کےد وران مریم نواز والدہ کی وفات کی خبر سننے کے بعد خود پر قابو نہیں رکھ پائیں اور اہل خانہ انہیں سنبھالنے کی کوشش کرتے رہے۔مریم نواز نے اپنے بچوں کو کافی دیر تک گلے لگائے رکھا۔ والدہ سے ملے2 ماہ ہونے اور بات نہ ہوسکنے کا بار بار تذکرہ کرتی رہیں۔اس موقع پر نواز شریف اور شہباز شریف کے علاوہ دیگر اہلخانہ مریم نواز کو دلاسہ دیتے رہے اور صبر کی تلقین کرتے رہے۔3بار خاتون اول رہنے والی کلثوم نواز1950کو پیدا ہوئیں۔ وہ رستم زمان گاما پہلوان کی نواسی تھیں۔انہوں نے ابتدائی تعلیم مدرسہ البنات سے حاصل کی۔میٹرک کا امتحان لیڈی گریفن اسکول،ایف ایس سی اسلامیہ کالج،بی ایس سی ایف سی کالج اور اردو میں ایم اے پنجاب یونیورسٹی سے کیا۔ ایم اے میں تعلیم کے دوران ہی ان کی منگی نواز شریف سے ہوئی۔بیگم کلثوم نواز کے بھائی عبدالطیف کی شادی شریف خاندان میں ہوئی اور یہی اپریل 1971 میں ان کی نواز شریف سے شادی کا سبب بنی۔کلثوم نواز عملی سیاست کے بجائے خاتون خانہ ہونے کو ترجیح دیتی تھیں۔جنرل پرویز مشرف کی جانب سے نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد شوہر نواز شریف اور دیور شہباز شریف کے جیل جانے کی وجہ سے وہ مجبوراً عملی سیاست میں آئیں اور احتجاجی سیاست شروع کی۔22جون 2000 میں انہیں نواز لیگ کی صدر بنایا گیا۔وہ2سال پارٹی صدر رہیں۔نواز شریف کی گرفتاری کے خلاف انہوں نے کاروان تحفظ پاکستان ریلی نکالی۔انہوں نے ملک کی دوسری بڑی سیاسی جماعت پیپلز پارٹی کے ساتھ مل کر اتحاد برائے بحالی جمہوریت(اے آر ڈی) کے قیام میں فعال کردار ادا کیا۔ وہ اتحاد کے اجلاسوں میں باقاعدگی سے شریک ہوتیں۔ انہوں نے نواز لیگ اور کارکنان کو متحد رکھنے کے لیے بھاگ دوڑ کی۔جولائی2000 میں ان کی ایک تصویر مزاحمت کا ایک استعارہ بن گئی۔ لاہور میں پولیس نے اے آر ڈی کے اجلاس میں شرکت سے روکنے کیلئے ان کی گاڑی روکی تو انہوں نے گاڑی اندر سے بند کر لی اور اترنے سے انکار کر دیا اور گھنٹوں کار کے اندر بیٹھی رہیں ، جس پر انتظامیہ نے ان کی گاڑی لفٹر کی مدد سے اٹھوائی۔اس تصویر نے فوجی حکومت کو مزاحمت کا مضبوط پیغام دیا بعد ازاں سعودی حکومت کی مدد سے ڈیل کے بعد وہ نواز شریف سمیت تمام اہل خانہ کے ہمراہ ریاض چلی گئیں۔بی بی سی کے مطابق 1999 میں نواز شریف کی رہائی کی لیے تحریک کی سربراہی بیگم کلثوم نواز کے سپرد کئے جانے کی ایک اہم وجہ نواز لیگ میں پھوٹ سے بچنا تھا ۔کلثوم نواز مشکل سیاسی حالات میں ایسی غیر متنازعہ شخصیت کے طور پر سامنے آئیں جن کے پیچھے پوری لیگی قیادت متحد ہو گئی۔کلثوم نواز بعد میں ان سیاسی رہنماؤں سے بھی ملتی رہیں جو نواز شریف سے ناراض ہو چکے تھے ۔