کرنٹ سے معذور حارث کا خاندان ڈیڑھ لاکھ کا مقروض ہوگیا

کراچی (رپورٹ : اسامہ عادل ) کے الیکٹرک حکام نے ادارے کی غفلت کے باعث کرنٹ لگنے سےمعذور ہونے والے حارث کے اہل خانہ سے اب تک کوئی رابطہ نہیں کیا اور نہ ہی فون کرکے بچے کی خیریت دریافت کی ہے ،11 سالہ حارث ڈیڑھ ماہ قبل سرجانی ٹاؤن سیکٹر 7 ڈی میں کے الیکٹرک کی ہائی ٹینشن تاروں کی وجہ سے دونوں ہاتھوں سے محروم ہوگیا تھا ، معلوم ہوا کہ مدرسے کی عمارت سے محض6 انچ کے فاصلے سے گزرنے والی کے الیکٹرک کی ہائی ٹینشن لائن حادثے کے باوجود اب تک نہیں ہٹائی جاسکی ہیں ،اس کے علاوہ حادثے کا شکار ہونے والے بچے کے والدین کی پریشانیاں بھی دن بدن بڑھتی جارہی ہیں ۔اس حوالے سے ’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے حارث کے والد عبد القیوم کا کہنا تھا کہ میرا بیٹا کے الیکٹرک کی وجہ سے زندگی بھر کے لئے معذور ہو چکا ہے ، کے الیکٹرک کی غفلت نے میرے مصو م بیٹے کی زندگی تاریک بنادی ہے ، ان کا کہنا تھا کہ جس ادارے کی وجہ سے اتنا بڑا واقعہ ہوا اس ادارے کے کسی فرد نے اظہار افسوس کے لئے رابطہ تک نہ کیا ،ان کا کہنا تھا کہ اتنے بڑے واقعہ پرانسانیت کے نام پر ہی بندہ رابطہ کر لیتا ہے لیکن کے الیکٹرک نے یہ تک گوارا نہ کیا ۔ عبد القوم کا کہنا تھا کہ کیا بچے صرف امیروں کے ہوتے ہیں ؟غریبوں کے بچے ، بچے نہیں ہوتے ؟ ان کا کہنا تھا کہ کے الیکٹرک کے اعلیٰ عہدوں پر موجود حکام بھی بال بچوں والے ہوں گے ، ان کو سوچنا چاہئے کہ اگر مال و دولت کے باوجود ان کے بچے کے ساتھ اس طرح کا واقعہ ہو تا تو ان پر کیا گزرتی ، کے الیکٹرک والوں کو سوچنا چاہئے کہ اگر حارث کی طرح کے کسی واقعہ میں ان کے 11سالہ مصو م بچے کے ہاتھ کاٹے جائیں تو ان کے دل پر کیا گزرے گی ،میں عام دنوں میں بھی دن رات محنت مزدوری کرتا ہوں تو جب کہیں جا کر گھر چلتا ہے اس پر حارث کی دیکھ بھال نے مجھے باقی تمام کاموں کے لئے مفلوج کر دیا ہے ، واقعہ کے متعلق بتاتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ 25جولائی ، عام انتخابات والے دن میں معمول کے مطابق گھر سے رکشہ لے کر روزی کمانے نکلا تھا، ابھی 9سے 10بجے کا درمیانی وقت تھا کہ حارث کے مدرسے کے ایک استاد کا فون آیا ، انہوں نے بتایا کہ آپ کے بیٹے کو حادثہ پیش آیا ہے اور اس وقت وہ بے ہوش ہے ، انہوں نے مجھے فوری طور پر اسپتال پہنچنے کا کہا ، میں اپنی سواریاں چھوڑ کر فوری اسپتال کے لئے روانہ ہوا ، جب میں اسپتال پہنچا تو اپنے گیارہ سالہ معصوم حارث کی حالت دیکھ کر دل بیٹھ گیا ، حارث کے دونوں ہاتھ بری طرح جلے ہوئے تھے اور جسم کے مختلف حصوں پر بھی زخم آئے تھے ، اس روز انتخابات کے باعث عام تعطیل تھی اور حارث بھی مدرسے کی چھٹی کی وجہ سے گھر پر ہی تھا ، جب میں گھر سے نکلا تو حارث کھیل کود میں مگن تھا ، تاہم چند گھنٹوں بعد ہی اس کی یہ حالت دیکھ کر لمحے بھر کے لئے دماغ نے کام کرنا ہی چھوڑ دیا اور مجھے کچھ سمجھ نہ آیا کہ یہ کیا ہوا ہے ، حارث کے ہاتھ جلنے کی وجہ سے کوئلہ بن گئے تھے اور وہ بے ہوشی کی حالت میں اسپتال کے بستر پر پڑا تھا ۔ بچے کو اس کے اساتذہ اسپتال لائے تھے ، انہوں نے بتایا کہ حارث کو کرنٹ لگا ہے ، عبد القیوم کے مطابق چھٹی ہونے کی وجہ سے حارث اپنے دوستوں کے ساتھ کرکٹ کھلنے کے لئے گھر سے نکلا تھا ، کھیل کے دوران گیند مدرسے کی چھت پر چلی گئی ، حارث گیند اتارنے مدرسے کی چھت پر گیا ۔ مدرسے کی چھت کے ساتھ ہی کے الیکٹرک کی 11ہزار والٹ کی ہائی ٹینشن لائن گزر رہی ہے ، ان میں سے ایک تار کا مدرسے کی دیوار سے فاصلہ محض 4سے 6انچ ہے ، گیند اٹھاتے وقت حارث کا توازن بگڑا اور اس نے سنبھلنے کے لئے ہاتھ بڑھایا کہ اسی اثناء میں دیوار کے ساتھ گزرنے والی گیارہ ہزار والٹ کی لائن سے اس کا ہاتھ ٹکرایا جس نے دیکھتے ہی دیکھتے حارث کے دونوں ہاتھ جلا کر کوئلہ بنا دیے اور وہ گر گیا ،مدرسے میں موجود اساتذہ کرام اسے لے کر فوری طور پر عباسی شہید اسپتال پہنچے جہاں ڈاکٹروں نے حارث کی حالت دیکھتے ہی اسی فوری طور پر سول اسپتال لے جانے کا کہا ، بچے کو سول اسپتال کے برنس وارڈ لایا گیا ۔عبد القیوم نے بتایا کہ جب حارث کو سول اسپتال کے برنس وارڈ لایا گیا تو وہ بے ہوش تھا اور ڈاکٹروں کا کہنا تھا کہ آپ دعا کریں ہم اپنی کوشش کر رہے ہیں ، حارث کو اگلے روز ہوش آیا تو وہ شدید تکلیف میں تھا۔ ڈاکٹروں کا کہنا تھا کہ حارث کے ہاتھ مکمل طور پر جل چکے ہیں ، ہم کوشش کر رہ ہے ہیں تاہم ساتھ میں ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ بچے کی جان بچانے کے لئے اس کے ہاتھ کاٹنے پڑ سکتے ہیں ، ہفتے بھر ڈاکٹروں نے اپنی کوششیں جاری رکھی تاہم واقعہ کے دسویں روز ڈاکٹروں نے حارث کی زندگی بچانے کے لئے اس کابایاں ہاتھ کاٹا اور چند روز بعد دایاں ہاتھ بھی کاٹ دیا گیا ۔ عبد القیوم نے بتایا کہ میں کرائے کے مکان میں رہتا ہوں دو کمروں کے مکان کا ماہانہ کرایا 10ہزار روپے ادا کرنا ہوتا ہے ،روزی روٹی کا بندو بست فور سٹر رکشہ چلا کر کرتا ہوں ، رکشہ بھی بھاڑے پر لیا ، یومیہ 600روپے بھاڑا مالک کو ادا کرنا ہوتا ہے ،حارث کے علاج معالجے اور دیکھ بھال کی وجہ سے 2ماہ کا عرصہ ہونے کو آیا کہ کام پر نہیں جا سکا ، 2بیٹے فیکٹری ملازم ہیں ، ان کی محدود آمدنی سے جیسے تیسے گھر کی دال روٹی چل رہی ہے ۔ کام کاج سے فارغ ہو چکا ہوں ،بچے کی دیکھ بھال کے لئے دن بھر اسپتال میں رہتا ہوں ،رقم نہ ہونے کی وجہ سے مالک مکان کو دو ماہ کا کرایا بھی ادا نہیں کر سکا ، مکان مالک نے گھر خالی کرنے کا کہا ، کرایا ادا کرنے کے لئے لوگوں سے ادھار لیا ، دیگر معاملات کے لئے بھی ادھار لینا پڑا ، ڈیڑھ ماہ کے دوران ہی ادھار کی رقم ایک لاکھ روپے سے تجاوز کرکے دیڑھ لاکھ تک پہنچ گئی ہے ۔ ڈاکٹر کہتے ہیں کہ حارث کی جلد از جلد صحت یابی کے لئے اچھی غذا کھلائی جائے ، حالت یہ ہے کہ عام غذا کا انتظام ہی بڑی مشکل سے ہوتا ہے ، فروٹ کا انتظام کہاں سے کروں ۔ واقعہ کے بعد گھر کے تمام معاملات درہم برہم ہوگئے ہیں ، میں اور میری اہلیہ روز صبح اسپتال آجاتے ہیں ،مغرب تک بیٹے کے ساتھ رہتے ہیں ،مغرب بعد گھر کے لئے روانہ ہو جاتے ہیں ، رات میں حارث کے ساتھ اس کے ماموں رکتے ہیں، یہ سلسلہ روز کا معمول بن چکا ہے جس کی وجہ سے دیگر تمام معمولات متاثر ہو رہے ہیں ۔عبد القیوم کا کہنا تھا کہ حارث اپنے دونوں ہاتھوں سے محروم ہو چکا ہے ، اسے اپنی باقی زندگی کسی نا کسی سہارے گزارنا ہوں گی ، کے الیکٹرک انتظامیہ کو چاہئے کہ وہ ہمارا نہیں تو 11سالہ معصوم بچے کا ہی احساس کرے تا کہ ان کے ادارے کی غفلت سے معذور ہونے والے بچے کو مستقبل میں علاج معالجے کی سہولیات مل سکیں ، ان کا کہنا تھا کہ میری بچے کا ہاتھ تو کوئی بھی اصل حالت میں نہیں لوٹا سکتا تاہم مستقبل میں اس کے لئے مصنوعی ہاتھ کا انتظام اور معمول کی زندگی گزارنے میں اس کی مدد کی جاسکتی ہے جس کا انتظام کےالیکٹرک کو کرنا چاہئے۔

Comments (0)
Add Comment