کراچی (رپورٹ:نواز بھٹو) سندھ حکومت نے کراچی کا امن خطرے میں ڈالنے والے خطرناک دہشت گردوں کے 800 مقدمات کی پیروی کرنیوالے 8 پراسیکیوٹرز کو فارغ کر دیا، جس سے دہشت مقدمات متاثر ہونے کا خدشہ پیدا ہوگیا ہے۔ پبلک پراسیکیوٹر جنرل سندھ کی طرف سے سپریم کورٹ کے فیصلے کی من مانی تشریح کرتے ہوئے کراچی ڈویژن کی انسداد دہشتگردی و خصوصی عدالتوں میں حکومت کے تعینات کردہ ڈسٹرکٹ پبلک پراسیکیوٹرز اور اسسٹنٹ پراسیکیوٹر جنرلز کو رینجرز کی طرف سے مقدمات کی پیروی کرنے کی ہدایت جاری کی گئی ہے۔مقدمات کی منتقلی اور تنخواہیں بند کرنے پر رینجرز حکام نے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے سیکریٹری داخلہ و انصاف کو لیٹر لکھ دیا۔ حکام کا کہنا ہے کہ اس مرحلے پر مقدمات کی منتقلی اور خطرناک ملزمان کی بریت سے شہر کا امن تباہ ہو سکتا ہے۔ تفصیلات کے مطابق حکومت سندھ ایک بار پھر رینجرز کیساتھ محاذ آرائی پہ اتر آئی ہے اور اس بار کراچی ڈویژن کی مختلف عدالتوں بشمول انسداد دہشت گردی عدالتوں میں رینجرز کی طرف سے پیش ہونے والے 8 اسپیشل پبلک پراسیکیوٹرز کی تنخواہیں بند کردی ہیں۔ رینجرز سندھ کے تحفظات و عدم اعتماد کے باوجود حکومت کی طرف سے تعینات ڈسٹرکٹ پبلک پراسیکیوٹرز و اسسٹنٹ پراسیکیوٹر جنرلز کے حوالے کردئیے ہیں، جو حکومت و رینجرز کی طرف سے عدالتوں میں پیش ہونگے۔ حکومت سندھ کے اس فیصلے پر سندھ رینجرز کا کہنا ہے کہ متعدد مقدمات اپنے منطقی انجام کو پہنچنے والے ہیں، اس مرحلے پر ان مقدمات کی منتقلی سے منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں اور خطرناک ملزمان کی بریت سے جرائم کی شرح میں اضافہ اور امن و امان خراب ہوسکتا ہے۔اس سے قبل رینجرز حکام نے نگران حکومت کو بھی ایک لیٹر لکھ کر تحفظات سے آگاہ کرتے ہوئے تنخواہیں جاری کرنے اور مقدمات کی منتقلی روکنے کی درخواست کی تھی لیکن رینجرز کی درخواست پر کسی قسم کی کارروائی نہیں کی گئی۔ گزشتہ روز سیکریٹری داخلہ و انصاف کو سندھ رینجرز کی طرف سے ایک تفصیلی لیٹر No.3900/prosec/2660/2018 موصول ہوا، جس میں کہا گیا ہے کہ نیشنل ایکشن پلان کے تحت ستمبر 2013 میں یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ کراچی میں 5 ایسے پولیس اسٹیشن قائم کئے جائیں گے، جہاں رینجرز کے ہاتھوں ملزمان سے تفتیش کی جا سکے گی۔ مزید کہا گیا ہے کہ نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کیلئے حکومت سندھ نے اس وقت رینجرز کی طرف سے سنگین مقدمات کی پیروی کے حوالے سے ایک سینئر اسپیشل پبلک پراسیکیوٹر سمیت 11 پبلک پراسیکیوٹر تعینات کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کیا تھا۔ جس پر سندھ رینجرز نے انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 کی شق 18 کے تحت ستمبر 2013 میں 11 پبلک پراسکیوٹرز مقرر کئے، جنہوں نے مقدمات کی پیروی شروع کردی، جس کی وجہ سے مقدمات کی سماعت تیز ہونے لگی۔ لیٹر میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ان 11 میں سے اس وقت صرف 8 اسپیشل پبلک پراسیکیوٹر اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں جن کی وجہ سے کئی ٹارگٹ کلر و دہشتگردوں کو سزائیں سنائی جا چکی ہیں اور کئی قید ہیں، جس سے شہر میں جرائم کم ہوئے اور امن و امان بحال ہوا ہے۔ 27 جون 2018 کو پبلک پراسیکیوٹر جنرل سندھ نے اعلامیہ No.PGS/Admin/40-01/2010/2113 جاری کیا، جس میں کراچی ڈویژن کی انسداد دہشت گردی و خصوصی عدالتوں میں تعینات تمام ڈسٹرکٹ پبلک پراسیکیوٹرز و اسسٹنٹ پراسیکیوٹر جنرلز کوہدایت کی گئی تھی کہ سپریم کورٹ نے از خود کارروائی کیس نمبر 2011/16 میں 26،27،29 اور 30 ستمبر 2011 کوسنائے جانے والے فیصلوں کی روشنی میں ریاست اور رینجرز کی طرف سے دہشتگردی کے تمام مقدمات میں وہ پیش ہوں۔ ذرائع کے مطابق پراسیکیوٹر جنرل سندھ کی طرف سے جاری سرکولر کے بعد رینجرز کی طرف سے عدالتوں میں پیش ہونے والے اسپیشل پراسیکیوٹرز کی تنخواہیں گزشتہ جون سے بند کردی گئی ہیں۔ تنخواہیں نہ ملنے کے باعث کوئی پبلک پراسیکیوٹر جنرل و اسسٹنٹ پراسیکیوٹر جنرل رینجرز کی طرف سے عدالتوں میں پیش نہیں ہو رہے، جس کی وجہ سے مقدمات التوا کا شکار ہوگئے ہیں۔ لیٹر میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کے اس فیصلے میں حکومت سندھ کو ہدایت کی گئی تھی کہ تمام ایڈہاک و کنٹریکٹ پراسیکیوٹرز کو فارغ کیا جائے اور قانونی طریقہ کار کے تحت اسامیوں پر بھرتیاں کی جائیں۔ حاصل دستاویزات کے مطابق رینجرز حکام نے لکھے گئے لیٹر کیساتھ پبلک پراسیکیوٹر جنرل سندھ کے لکھے گئے لیٹر اور سپریم کورٹ کے فیصلوں کی نقول بھی منسلک کی ہیں اور حکومت کو باور کرانے کی کوشش کی گئی ہے کہ رینجرز کی طرف سے دہشت گردی کے سنگین مقدمات کی پیروی کیلئے اسپیشل پبلک پراسیکیوٹرز کی خدمات حاصل کرنا سپریم کورٹ کے فیصلے کی خلاف ورزی نہیں ہے۔ لیٹر کے پیرا نمبر 6 کے آخر میں کہا گیا ہے کہ اس مرحلے پر جب مقدمات منطقی انجام کو پہنچنے والے ہیں، اس وقت ان مقدمات کی منتقلی سے منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں اور خطرناک ملزمان کی بریت سے شہر میں جرائم کی شرح میں اضافے سمیت امن و امان کی صورتحال خراب ہو سکتی ہے۔