کابل ( امت نیوز)افغان رہنمائوں نے امریکی اڈوں پرنظر ثانی کا مطالبہ کردیا۔کابل میں سیاسی اور سیکورٹی صورتحال پر لویہ جرگے میں سینئر اراکین اسمبلی اورسیاسی رہنما امریکہ کی وعدہ خلافیوں پر پھٹ پڑے۔انہوں نے صدر اشرف غنی پر زور دیا کہ امریکہ کے ساتھ 2014 میں ہونے والے دو طرفہ سیکورٹی معاہدے(بی ایس اے) کا جائزہ لیا جائے۔ اس مطالبے سے اشرف غنی حکومت پر دبائو میں اضافہ ہوگیا جبکہ طالبان کی پوزیشن مضبوط ہوئی ہے۔ معاہدے میں طے پایا تھا کہ 9800 امریکی فوج افغانستان میں رہیں گے۔اس کے علاوہ نیٹو ملکوں کے 3000 فوجی بھی امریکی فوج کی معاونت کرتے رہیں گے۔ بی ایس اے کی رو سے بعض مخصوص فوجی دستوں کوافغانستان میں رہنے کی اجازت دی گئی تھی ،تاکہ وہ انسدادِ دہشت گردی کی کارروائیاں کر سکیں اورافغان فوج کو ضروری تعاون اور تربیت فراہم کر سکیں۔ طلوع نیوز کے مطابق گزشتہ روز اجلاس کے دوران سابق افغان صدر حامد کرزئی نے زور دیا کہ حکومت کے امریکہ سے کئے گئے معاہدے پر نظرثانی کی جائے، بیشتر سیاسی رہنماؤں نے اس کی حمایت کی جن میں سابق قائم مقام صدر صبغت اللہ مجددی بھی شامل ہیں جو اس سےقبل معاہدے کے پرجوش حامی تھے۔ اجلاس میں سابق قومی سلامتی مشیر محمد حنیف اتمر، محمد محقق، عبداللہ عبداللہ، سابق نائب صدر احمد ولی مسعود، رکن پارلیمنٹ سید منصور نادری، سابق وزیر خارجہ ضرار احمد مقبل، سابق صدارتی امیدوار زلمے رسول، سابق قومی سلامتی مشیر رنگین دادفر سپنتا، حزب اسلامی کے رہنما عبدالہادی ارغندوال، نیشنل اسلامک فرنٹ کے سربراہ پیر سید حمید گیلانی، حزب وحدت اسلامی کے نائب صدر نعمت اللہ، سابق وزیر خزانہ انوار الحق احدی اور دیگر رہنما شریک ہوئے۔ صبغت اللہ مجددی نے بتایا کہ ہم نے ملک کودرپیش صورتحال کا جائزہ لیا۔ حزب وحدت اسلامی کے نائب صدر نعمت اللہ کا کہنا تھا کہ ملک کو درپیش 3 اہم مسائل الیکشن کی شفافیت، امن اور سیکورٹی پر بحث ہونی چاہئے۔اجلاس میں افغان سیاستدانوں نے بی ایس اے پرسوالات اٹھائے اور سیکورٹی معاہدے کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔حامد کرزئی نے کہا کہ امریکہ معاہدے کے تحت اپنے وعدے پورے کرنے میں ناکام رہا ہے۔دریں اثنا افغان صدر اشرف غنی نے امریکہ سے سیکورٹی معاہدے کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکہ نے افغان سیکورٹی فورسز کے لئے سالانہ6 ارب ڈالر ادا کئے۔ اگر سیاستدان یہ امداد رکوانا چاہتے ہیں تو اس سے امریکی یقینا بہت خوش ہونگے۔دوسری جانب امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان افغانستان کے سیاسی تصفیے کیلئے بامعنی مذاکرات کا عمل امریکہ کے اس اصرار پر تعطل کا شکار ہے کہ امریکہ افغانستان میں اپنے 2 فوجی اڈے برقرار رکھے گا۔امریکی میڈیا کے مطابق اس بات کا انکشاف سابق طالبان رہنما وحید مزدہ نے کیا۔اُن کا کہنا ہے کہ امریکہ چاہتا ہے کہ طالبان کم سے کم بگرام اور شورابک میں موجود 2 امریکی اڈوں کی موجودگی برقرار رکھنے کو تسلیم کرلیں۔ لیکن طالبان یہ شرط تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں۔امریکی فوج کے ایک ریٹائرڈ کرنل اور پینٹاگون کے سابق مشیر کرسٹوفر کولینڈا کا کہنا ہے کہ طالبان افغانستان میں موجود امریکی فوجوں کو قابض فوج سمجھتے ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ امریکی فوجی افغانستان سے نکل جائیں۔علاوہ ازیں رائٹرز نے ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ طالبان نے امریکہ کے ساتھ مذاکرات کے اگلے دور کیلئے تین یا چار رکنی وفد تشکیل دینے پر کام شروع کر دیا ہے۔ تاہم طالبان کا کہنا ہے کہ مذاکرات کے اگلے دور سے قبل گرفتار ہونے والے طالبان کی رہائی بنیادی شرط ہوگی۔جبکہ افغان طالبان نے مذاکرات کے حوالے سے رائٹرز کی رپورٹ کو بےبنیاد قرار دیا ہے۔طالبان اعلامیہ کے مطابق امریکہ سے مذاکرات اور قیدیوں کی رہائی کے متعلق خبر جھوٹی ہے۔امارت اسلامیہ کے اپنے مؤقف کے اعلان کے لیے چینلز اور ترجمان ہیں،اگر کسی موضوع میں میڈیا کو ضرورت پڑی یا اظہار خیال کرنا پڑیگا تو امارت اسلامیہ کے ترجمانوں کی جانب سے رسمی چینلز سے ہوگا۔طالبان ترجمان نےکہا کہ ناشناس افراد کو امارت اسلامیہ کے رہنماکہنا اور پھر ان سے نقل اور قول کو شائع کرنامغربی ذرائع ابلاغ کے اس پروپیگنڈے کا حصہ ہے۔ادھروزیر خارجہ شاہ محمود قریشی افغان ہم منصب صلاح الدین ربانی کی دعوت پر کل 15 ستمبر ایک روزہ دورے پر کابل جائیں گے۔وزیر خارجہ کی حیثیت سے شاہ محمود قریشی کا پہلا غیر ملکی دورہ ہوگا۔ وزیر خارجہ دورہ کابل کے موقع پر افغان صدر اشرف غنی سے بھی ملاقات کریں گے۔اشرف غنی کو وزیراعظم عمران خان کی طرف سے دورہ پاکستان کی دعوت دی جائے گی ۔پاکستان کی جانب سے افغانستان کو ایک مرتبہ پھر امن کی پیشکش کی جائے گی، افغان مسئلے کا مذاکرات کے ذریعے حل تلاش کرنے پر زور دیا جائے گا۔علاوہ ازیں افغانستان کے چیف ایگزیکٹو عبد اللہ عبد اللہ نے نئی دہلی میں سہ ملکی مذاکرات کے دوران کہا کہ پاکستان میں نئی حکومت سے امید ہے کہ وہ افغان طالبان پر دبائو ڈال کر انہیں مذاکرات کیلئے آمادہ کر لیں گے ۔ جبکہ ترجمان امریکی محکمہ خارجہ ہیتھرنورٹ نے بریفنگ میں کہا ہے کہ افغانستان کے حالات انتہائی سنجیدہ ہیں۔ طالبان سے مذاکرات کی قیادت افغان حکومت ہی کرے گی، ہم معاونت کرینگے۔انہوں نے کہا کہ امریکی وزیر خارجہ کا دورہ پاکستان مختصر مگر اہم تھا۔ نئی پاکستانی حکومت سے بہتر تعلقات کے منتظر ہیں۔