جعلی الاٹمنٹ پر بلڈر اور کے ایم سی افسر کو 7 برس قید

کراچی (اسٹاف رپورٹر) احتساب عدالت نےپلاٹوں کو جعلسازی سے ہتھیانے و خزانے کو 93 کروڑ نقصان پہنچانے کا جرم ثابت ہونے پر کے ایم سی کے سابق ڈپٹی ڈائریکٹر ذیشان حیدر نقوی و بلڈر اخلاق میمن کو 7 سال قیدکی سزا کا حکم سنا دیا۔ دونوں 10 برس کے لئے کسی بھی سرکاری عہدے ، بینک یا مالیاتی ادارے سے قرضہ لینے کے لئے بھی نااہل ہوں گے ۔نا اہلی کا اطلاق سزا کی مدت پوری ہونے کی تاریخ سے ہوگا۔عدالت نے مفرور5 ملزمان اشفاق علی،امتہ الزہرا،منال شیخ ،محمد رفیق اور اسلم پاریکھ کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری بھی جاری کردیئے ہیں۔جمعہ کے روز احتساب عدالت میں کے ایم سی کے پلاٹوں کو جعلسازی سے ہتھیانے کے کیس کا فیصلہ سنایا گیا جو گزشتہ سماعت پر محفوظ کرلیا گیا ۔ اس موقع پر ملزمان کے ایم سی کے سابق ڈپٹی ڈائریکٹر ذیشان حیدر نقوی اور بلڈر اخلاق میمن کو پیش کیا گیا ۔فیصلے میں کہا گیا ہے کہ مجرم محمد اخلاق میمن نے پلاٹ نمبر کلفٹن (اولڈ سروے نمبر 4) فریئر ٹاؤن کوارٹرز اولڈ 29,FT3 مفرور ملزم محمد اسلم پاریکھ سے مارکیٹ ویلیو سے کم قیمت پر خریدا۔ اخلاق میمن یہ بھی جانتا تھا کہ یہ پلاٹ کے ایم سی کی ملکیت ہے۔مجرم ذیشان حیدر نقوی نے بحیثیت ایڈیشنل ڈائریکٹر لینڈ ریکارڈ اینڈ ٹیکنیکل کے ایم سی 29 مارچ 2012 کو ایک لیٹر جاری کیا جس میں ظاہر کیا گیا تھا کہ مذکورہ پلاٹ امتہ الزہرا مرزا کی ملکیت ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کے ایم سی کے ریکارڈ کے مطابق یہ پلاٹ کسی فرد کے بجائے کے ایم سی کی ملکیت اور قبضے میں ہے ۔ دونوں مجرم خزانہ کو 93 کروڑ روپے کا نقصان پہنچانے کے ذمہ دار ہیں ۔کے ایم سی نے 1951 میں یہ پلاٹ محمد راشد چاؤلہ کے نام پر الاٹ کیا تھا لیکن الاٹی شرائط کی تکمیل میں ناکام رہی جس پر پلاٹ کی الاٹمنٹ منسوخ کردی۔بعد ازاں کے ایم سی نے پلاٹ پر افسران کی رہائش کے لیے بنگلے تعمیر کرائے ۔سال 2011-12 میں پلاٹ کی اراضی سرکاری افسران کی ملی بھگت سے پرائیویٹ افراد کو دینے کا منصوبہ تیار کیا گیا۔مذموم مقصد کے حصول کے لیے علاقائی دفتر کے ریکارڈ میں بوگس انٹریز کا اندراج کرایا گیا ان بوگس انٹریز کے تحت یہ پلاٹ 1961 میں خان صاحب علی محمد علوی نامی شخص کے نام پر ٹرانسفر ظاہر کیا گیا اس کے بعد 1977 میں اسے قاضی ضیا الدین کے نام پر منتقل کیا گیا تمام اندراج کی دستیاب فوٹوں کاپیوں کی جانچ پڑتال کی گئی تو معلوم ہوا کہ یہ تمام جعلی اندراج غیر رجسٹرڈ سیل ایگریمنٹ کے تحت کیے گئے تھے جن کا انتقال اراضی کے مروجہ قواعد و ضوابط سے کوئی تعلق نہیں۔ریکارڈ کی جانچ پڑتال سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ قاضی ضیا الدین کے ساتھ ہونے والے سیل ایگریمنٹ کے وقت ملزمہ نمبر امتہ الزہرا پاکستان میں موجود نہیں تھی۔اس نے مفرور ملزم محمد رفیق کو پاکستان میں کینیا کے ہائی کمشنر کی توسط سے پاور آف اٹارنی دیا تھا ۔ مفرور ملزم نے بعد ازاں سب پاور آف اٹارنی فروری 2013 میں اسلم پاریکھ کو دی جس نے بعد میں یہ پراپرٹی مجرم اخلاق میمن کے نام پر ٹرانسفر کی اور جون 2013 میں سیل ایگریمنٹ کیا تھا۔

Comments (0)
Add Comment