کراچی (اسٹاف رپورٹر) واٹر کمیشن نے شارع فیصل اور ایف ٹی سی اوور ہیڈ برج سمیت دیگر پل پر غیر قانونی دکانوں اور تجاوزات کے معاملے پر کمشنر کراچی ،ڈائریکٹر ملٹری لینڈز اور کنٹونمنٹس سمیت متعلقہ انتظامیہ کو اجلاس کرکے 15یوم میں حتمی رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کردی ۔ واٹر کمیشن کے سربراہ جسٹس (ر) امیر ہانی مسلم نے حکم دیا ہے کہ شارع فیصل کے دیگر مسائل پر متعلقہ حکام کمیشن کے فوکل پرسن کے ساتھ بیٹھیں اور اس کی بھی آئندہ سماعت پر رپورٹ پیش کی جائے۔ہفتے کو سندھ ہائی کورٹ میں ازخود نوٹس کی سماعت کے موقع ایڈووکیٹ جنرل سندھ سلمان طالب الدین ،سیکریٹری ٹریننگ مینجمنٹ اینڈ ریسرچ ونگ سید آصف حیدر شاہ ،سیکریٹر ی لوکل گورنمنٹ سید خالد حیدر شاہ ،کراچی اورکلفٹن کنٹونمنٹ بورڈز کے وکیل سہیل ایچ کے رانا،اسسٹنٹ اٹارنی جنرل محمد شعیب مرزا،کمشنر کراچی ڈاکٹر سید سیف الر حمن ،ڈائریکٹر جنرل سندھ کنٹرول بلڈنگ اتھارٹی (ڈی جی ایس بی سی اے) افتخار قائم خانی ،ملٹری لینڈز اینڈ کنٹونمنٹس خورشید علی ،سی ای او/ایم ای او کراچی کنٹوئمنٹ بورڈ امیر معسوداحمد ،ڈپٹی کمشنر جنوبی سید صلاح الدین احمد ،ڈی سی شرقی احمد علی صدیقی ،لیگل ایڈوائزرکراچی کنٹوئمنٹ بورڈ محمد اسلم چودھری ،ایس ایس پی سٹی ڈاکٹر سمیع اللہ سومرو،سینئر ڈائریکٹر انسداد تجاوزات کے ایم سی محمد بشیر صدیقی ،ایس ایس پی جنوبی عمر شاہد حامد ،ڈائریکٹر جے ایم ٹی ٹوایس بی سی اے سید آصف رضوی اور شہری مس امبر علی بائی موجو د تھیں۔ سماعت کے دوران فوکل پرسن سید آصف حیدر شاہ نے کمیشن کو بتایا کہ کارساز سمیت دیگر مقامات پر فلائی اوور کے نیچے دکانیں اور تجاوزات قائم ہیں۔ دوران سماعت سی ای او کراچی کنٹونمنٹ بورڈ سے کمیشن کے سربراہ جسٹس (ر) امیر ہانی مسلم نے استفسار کیا کہ کس قانون کے تحت اوور ہیڈ برج کے نیچے دکانیں بنائی ہیں ؟ جس پر سی ای او کراچی کنٹوئمنٹ بورڈ نے بتایا کہ سپریم کورٹ اور واٹر کمیشن کے حکم پر اشتہاری دیوار ختم کردی تھی ،پاک آرمی کی ایک دیوار باقی ہے جو دفاعی مقاصد کیلئے تعمیر کی گئی ہے،کمیشن نے استفسار کیا کہ صرف یہ بتائیں فلائی اوور کے نیچے کس قانون کے تحت تجارتی سرگرمیاں ہوسکتی ہیں ؟ جس پر سی ای او نے کہا کہ آرمی کا کہنا ہے یہ سارا علاقہ ہمارا تھا ، فلائی اوور بننے کے بعد بھی مقامی حکومت کو منتقل نہیں ہوا، کمیشن میں ڈی جی ملٹری لینڈز اینڈ کنٹونمنٹس نے پیش ہوکر بتایا کہ دکانیں فائی کور نے تعمیر کی ہیں ہمارا کوئی کردار نہیں ، اس موقع پر فوکل پرسن سید آصف حیدر شاہ نے کمیشن کو بتایا کہ صرف ایف ٹی سی فلائی اوور کا معاملہ نہیں شارع فیصل پر کئی تجاوزات ہیں ،بلوچ کالونی پل کے نیچے بھی اس طرح کی سرگرمیاں ہورہی ہیں ، جس پر کمیشن کا کہنا تھا کہ مسئلہ یہ ہے دکانیں بنیں گی تو اس کا فضلہ بھی خارج ہوگا، سیوریج کاپانی کہاں جائے گا؟کیا فلائی اوورز کے نیچے بلڈنگز بن سکتی ہیں ؟ ہم شہریوں کے حقوق کی بات کررہے ہیں ،اگر شہریوں کے حقوق کے خلاف ورزی ہوگی تو ہم مداخلت کریں گے ،شہر میں کئی مقامات پر مستقل اسٹرکچر بنادیئے گئے ہیں جن کو ہٹانا مشکل ہو رہا ہے، فوکل پرسن نے کمیشن کو بتایا کہ کم از کم شا رع فیصل کے فٹ پاتھ وغیرہ پر عارضی تجارتی سرگرمیوں کی بھی اجازت نہیں ہونی چاہئے، پارکنگ کو بھی ریگولرائز کیا جائے، سروس روڈز پر پارکنگ ہے، دوران سماعت ڈی جی ایس بی سی اے نےبتایا کہ جس ادارے کی حدود میں غیر قانونی تجارتی سرگرمیاں یا تجاوزات ہو وہی ادارہ ذمہ دار ہے۔ کمشنر کراچی نے کہا کہ ایف ٹی سی پر اشتہاری دیوار گرائی نہیں، صرف سوراخ کیے گئے جو بعد میں بھر دیئے گئے تھے ۔ کمیشن نے کہا کہ سپریم کورٹ میں اشتہاری دیواروں کا معاملہ زیر سماعت تھا دکانوں کی تعمیر کا نیا پہلو سامنے آگیا۔سپریم کورٹ نے آرمی کو بھی ہدایت کی تھی کہ دیوار کو تجارتی مقاصد کیلئے استعمال نہ کریں۔ سماعت کے موقع پر ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کمیشن کو آگاہ کیا کہ سپریم کورٹ کے حکم پر اشتہارات کا نیا قانون بنایا گیا ہے ،بڑے بڑے سائن بورڈز ہٹا دیئے گئے ،ایف ٹی سی پر تعمیر کی گئی دیو ہیکل دیوار خطر ناک ہوسکتی تھی ، جس پر کمیشن کا کہنا تھا کہ میں یہ معاملہ سپریم کورٹ کو بھی بھیج سکتا ہوں،اس طرح کی تجاوزات سے وقت کے ساتھ مسائل میں اضافہ ہوتا ہے، کمیشن کو آرڈینٹر نے کمیشن کو بتایا کہ شہر کے دیگر پلوں کے نیچے بھی کمرشل سرگرمیاں ختم ہونی چاہیے ، ایڈوکیٹ جنرل کا کہنا تھا کہ کئی ریڑھی والے روزانہ آتے ہیں اور چلے جاتے ہیں ان کا روزگار ہے، جس پر کمیشن کا اپنے ریمارکس میں کہنا تھا کہ کیا فٹ پاتھوں اور سڑکوں پر تجاوزات کی اجازت دے دیں ؟کیایہ سوچ کر چرس بیچنے کی بھی اجازت دے دیں کہ یہ غریب آدمی ہے ، کمیشن میں پی سی ایچ ایس کے مکینوں کا کہنا تھا کہ رہائشی علاقوں میں کمرشل سرگرمیوں کی وجہ سے ہماری زندگی اجیرن ہوگئی،خالد بن ولید روڈ سمیت دیگر مقامات پر تجاوزات کی بھرمار ہے،اب ہمارے گھروں میں پانی بھی نہیں آتا، کمیشن نے خاتون شہری کو تحریری درخواست جمع کرانے کی ہدایت کی۔کمیشن نے امبر علی بائی کی درخواست پر ڈائریکٹر جنرل سندھ سالڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ ،ایم ڈی کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ ،ڈی سی شرقی اور میونسپل کمشنر کو 3اکتوبر کے لیے نوٹس بھی جاری کردئیے ہیں۔