لاہور(مانیٹرنگ ڈیسک) سپریم کورٹ میں ریلوے خسارہ کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس ثاقب نثار اور سابق وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا ، جسٹس ثاقب نثار نے (ن) لیگی رہنما پر برہمی کا اظہار بھی کیا۔سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں ریلوے خسارہ ازخود نوٹس کیس کی سماعت ہوئی جس دوران سابق وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق عدالت کی جانب سے طلب کیے جانے پر پیش ہوگئے۔چیف جسٹس نے خواجہ سعد رفیق سے استفسار کیاکہ خواجہ صاحب آپ نے آڈٹ رپورٹ دیکھی؟ ۔سابق وزیر ریلوے نے کہا کہ ہم نے ریلوے کو اپنے پاؤں پر کھڑا کیا، یہاں بے عزتی کروانے نہیں آیا۔جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ آپ کی کوئی بے عزتی نہیں کررہا، آج تو آپ گھر سے غصے میں آئے ہیں۔سعد رفیق نے جواب دیا کہ میں غصے میں نہیں آیا، ججز کا کوڈ آف کنڈکٹ ہے کہ وہ کسی کی بے عزتی نہیں کرسکتے۔چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آپ اپنا غرور گھر چھوڑ کر آیا کریں، آپ سے جو پوچھا جارہا ہے وہ بتائیں۔سابق وزیر ریلوے نے چیف جسٹس سے مکالمہ کیا کہ میں شاباش لینے آتا ہوں آگے ڈانٹ پڑجاتی ہے، اس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آپ جواب جمع کروائیں پھر دیکھتے ہیں شاباش ملتی ہے یا نہیں۔سعد رفیق نے عدالت سے استدعا کی کہ میرا الیکشن ہے اور ایک ہزار صفحات کی رپورٹ ہے،مجھے ایک ماہ کی مہلت دی جائے، ایک ہزار صفحات کی آڈٹ رپورٹ پر کیسے جواب جمع کرواؤں، میں کوئی اکاونٹس افسر نہیں۔چیف جسٹس نے خواجہ سعد رفیق سے کہاکہ آپ وکیل کریں اور کسی کنسلٹنٹ سے مشورہ کرکے جواب دیں۔ سعد رفیق نے کہاکہ مجھے بتائیں کہ کیا میرے متعلق رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ میں نے بدعنوانی کی یا کرپشن کی ہے، میرے ساتھ انصاف نہیں ہو رہا، میں ریلوے کو جتنا ٹھیک کر سکتا تھا اتنا کرنے کی کوشش کی۔لیگی رہنما کے جواب پر چیف جسٹس پاکستان نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آپ اپنا رویہ درست کریں غصہ کس بات کا ہے آپ کو؟ یہاں آپ سے جو پوچھا جارہا ہے صرف اس کا جواب دیں، آپ گھر سے سوچ کر آئے تھے کہ عدالت کی بے حرمتی کرنی ہے۔خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ اللہ گواہ ہے میں عدلیہ کی توہین سےمتعلق سوچ بھی نہیں سکتا۔بعد ازاں عدالت نے سابق وزیر ریلوے کو جواب داخل کرنے کے لیے ایک ماہ کی مہلت دے دی۔
(ن) لیگی رہنما پر برہمی کا اظہار بھی کیا۔سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں ریلوے خسارہ ازخود نوٹس کیس کی سماعت ہوئی جس دوران سابق وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق عدالت کی جانب سے طلب کیے جانے پر پیش ہوگئے۔چیف جسٹس نے خواجہ سعد رفیق سے استفسار کیاکہ خواجہ صاحب آپ نے آڈٹ رپورٹ دیکھی؟ ۔سابق وزیر ریلوے نے کہا کہ ہم نے ریلوے کو اپنے پاؤں پر کھڑا کیا، یہاں بے عزتی کروانے نہیں آیا۔جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ آپ کی کوئی بے عزتی نہیں کررہا، آج تو آپ گھر سے غصے میں آئے ہیں۔سعد رفیق نے جواب دیا کہ میں غصے میں نہیں آیا، ججز کا کوڈ آف کنڈکٹ ہے کہ وہ کسی کی بے عزتی نہیں کرسکتے۔چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آپ اپنا غرور گھر چھوڑ کر آیا کریں، آپ سے جو پوچھا جارہا ہے وہ بتائیں۔سابق وزیر ریلوے نے چیف جسٹس سے مکالمہ کیا کہ میں شاباش لینے آتا ہوں آگے ڈانٹ پڑجاتی ہے، اس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آپ جواب جمع کروائیں پھر دیکھتے ہیں شاباش ملتی ہے یا نہیں۔سعد رفیق نے عدالت سے استدعا کی کہ میرا الیکشن ہے اور ایک ہزار صفحات کی رپورٹ ہے،مجھے ایک ماہ کی مہلت دی جائے، ایک ہزار صفحات کی آڈٹ رپورٹ پر کیسے جواب جمع کرواؤں، میں کوئی اکاونٹس افسر نہیں۔چیف جسٹس نے خواجہ سعد رفیق سے کہاکہ آپ وکیل کریں اور کسی کنسلٹنٹ سے مشورہ کرکے جواب دیں۔ سعد رفیق نے کہاکہ مجھے بتائیں کہ کیا میرے متعلق رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ میں نے بدعنوانی کی یا کرپشن کی ہے، میرے ساتھ انصاف نہیں ہو رہا، میں ریلوے کو جتنا ٹھیک کر سکتا تھا اتنا کرنے کی کوشش کی۔لیگی رہنما کے جواب پر چیف جسٹس پاکستان نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آپ اپنا رویہ درست کریں غصہ کس بات کا ہے آپ کو؟ یہاں آپ سے جو پوچھا جارہا ہے صرف اس کا جواب دیں، آپ گھر سے سوچ کر آئے تھے کہ عدالت کی بے حرمتی کرنی ہے۔خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ اللہ گواہ ہے میں عدلیہ کی توہین سےمتعلق سوچ بھی نہیں سکتا۔بعد ازاں عدالت نے سابق وزیر ریلوے کو جواب داخل کرنے کے لیے ایک ماہ کی مہلت دے دی۔