اسلام آباد(خبرایجنسیاں)وزیراعلیٰ پنجاب کے انتخابی حریف پرپولیس تشدد کے خلاف اپوزیشن نے ایوان بالاسے واک آؤٹ کیا، گیس کی قیمتوں میں اضافے کی قیمتوں میں اضافے پر حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور فیصلے پر فوری نظر ثانی کا مطالبہ کر دیا۔حزب اختلاف کے سینیٹرز نے کہا کہ گیس کی قیمتوں میں اضافے سے سارے شعبے متاثر ہوں گے۔ سینیٹ کااجلاس چیئرمین صادق سنجرانی کی زیر صدارت ہوا۔اس موقع پر نو منتخب سینیٹر سرفراز بگٹی نے اپنے عہدے کا حلف اٹھایا۔سینیٹر حاصل بزنجو نے کہا کہ نئے پاکستان کے دعویداروں نے وزیر اعلیٰ پنجاب کے مقابل الیکشن لڑنے والے حفیظ بلوچ بزدار کے باپ اور بھائی کو گھر میں گھس کر تشدد کا نشانہ بنایا اور بعد میں پولیس کے ذریعے گرفتار کروایا، کیا یہ نیا پاکستان ہے؟اپنے مخالفوں کے ساتھ ایسے رویے افسوسناک ہیں ،ایوان کو اس پر آواز اٹھانا ہوگی۔ سینیٹر حاصل بزنجو نے چیئرمین سینٹ کو اپنے موبائل میں تصویر دکھاتے ہوئے بتایا کہ یہ تصویر نئے پاکستان کی ہے یہ تصویر حفیظ بزدار کی ہے پرسوں تبدیلی کے غنڈوں نے ان کو لہولہان کر دیا ۔پولیس نے مارنے کے بعد گرفتار بھی کیا ۔ان کا جرم یہ ہے کہ انہوں نے وزیر اعلیٰ کے خلاف الیکشن لڑا تھا کیا نیا پاکستان اس طرح بنائیں گے جو آپ کے خلاف الیکشن لڑے اس کو مارا پیٹا جائے جس پر چیئرمین سینٹ نے معاملے کو متعلقہ قائمہ کمیٹی کو بھیج دیا اور ایک ہفتہ کے اندر حفیظ بلوچ بزدار کے والد اور بھائی پر تشدد کے واقعہ کی رپورٹ طلب کر لی ۔ اپوزیشن نے اس معاملے پر ایوان سے احتجاجاً واک آؤٹ بھی کیا جس پر وزیر پارلیمانی امور علی محمد خان اپوزیشن کو منا کر واپس ایوان میں لے کر آئے۔ اجلاس میں مفاد عامہ کے موضوع پر بحث میں حصہ لیتے ہوئےسینیٹر شیری رحمٰن نے کہا کہ گیس قیمتوں میں143فیصد اضافہ سراسر ناانصافی ہے،پارلیمان سے پوچھ کر فیصلے کرنے کے دعوے کرنے والوں نے راتوں رات گیس کی قیمتوں میں اضافہ کر دیا ۔حکمران پچھلی حکومت پر تنقید کرتے تھے آج خود انہوں نے وہی راستہ اختیار کیا۔اس کا کوئی جواز نہیں تھا،کمیٹیوں میں اس پر بحث ہونی چاہئے تھیں،یہ تو صرف سودن سو لطیفے والی بات ہے۔سینیٹر مصطفی نواز کھوکھر نے کہا کہ حکومت بتائے آئی ایم ایف کے پاس جانا ہے یا نہیں؟آئی ایم ایف سے 9بلین ڈالر قرضوں کی بات چل رہی ہے،حکومت نے اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ سے ہاتھ اٹھا لئے ہیں۔سینیٹر عبد القیوم نے کہا کہ حکومت کی تین چار ہفتوں کی پالیسی میں کنفیوژن نظر آ رہی ہے،یہ معیشت کیلئے تباہ کن ہو گی،وزیراعظم ہاؤس کا ایک ایک کمرہ دکھایا جا رہا ہے جو کہ سکیورٹی رسک ہے،وزیر اعظم ہاؤس اور گورنر ہاؤسز کسی شخصیت کے نہیں ریاستی ادارے ہیں،جھونپڑی میں بیٹھ کر بھی شاہ خرچیاں کی جاسکتی ہیں جبکہ وزیر اعظم ہاؤس میں بیٹھ کر بھی سادگی اپنائی جا سکتی ہے۔سینیٹر جاوید عباسی نے کہا کہ حکومت میں آنے سے پہلے پی ٹی آئی والے صبح و شام کینیٹنرز پر چڑھ کر دعوے کیا کرتے تھے کہ ہمارے پاس بہترین معاشی ٹیم ہے،گیس کی قیمتوں میں اضافہ کر کے حکومت نے عوام پر مہنگائی کا بم گرایا ،10فیصد اضافے کا نام دے کر 143فیصد اضافہ کر دیا گیا۔اگر پارلیمنٹ پر یقین ہوتا تو رات کے اندھیرے میں فیصلے نہیں کیے جاتے، بہترین معاشی ٹیم کا سارا زور وزیر اعظم ہاؤس کی گاڑیاں اور بھینسوں کو بیچنے پر لگا ہو اہے ،وزیر اعظم ہیلی کاپٹر سے جائیں یا دو گاڑیوں کے ساتھ عوام کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا،عوام کو گیس کی قیمتوں میں اضافے سے ضرورفرق پڑے گا،حکومت فنانس بل کو فوری طور پر واپس لے، پانی اہم مسئلہ ہے ،نواز شریف کی حکومت نے دیامر بھاشا ڈیم کیلئے 100ارب دے کر زمین خریدی،عوام کو ٹرک کے بتی کے پیچھے لگا دیا گیاہے،بیرون ملک سے ڈیم کے لیے جمع ہونے والی رقوم کی تفصیلات ایوان میں پیش کی جائیں۔سینیٹر ہارون اختر نے کہا کہ پچھلی حکومت کے پانچ سالوں میں سب کچھ غلط ہونے کا تاثر درست نہیں،ہمارے دور میں مہنگائی میں نمایاں کمی اور جی ڈی پی میں اضافہ ہوا،مانیٹری کنٹرکشن سے مہنگائی کا طوفان آئے گا،حکومت گیس کے بعد بجلی ٹیرف بڑھانے کا سوچ رہی ہے،تین چار سیاستدانوں کا پیچھا ضرور کریں مگر اس کی آڑ میں پوری بزنس کمیونٹی کو تنگ نہ کیا جائے،ایوان کو گیس کی قیمتوں میں اضافے کے بل کو مسترد کرنا چاہیے،ایمنسٹی سکیم کے ذریعے سوا سو ارب ٹیکس جمع ہوا۔قائد ایوان سینیٹر شبلی فراز نے کہا کہ حکومت کو معیشت بُری حالت میں ملی،1.3بلین کا گردشی قرضہ ہے،پچھلی حکومت کو گیس کی قیمتوں میں گاہے بگاہے اضافہ کرتے رہنا چاہیے تھا،سیاسی مفادات کیلئے قیمتوں کو برقرار رکھا گیا، عوام سے حقائق چھپائے گئے، اب عوام کو پورا سچ بتایا جائے گا،گیس کی قیمتوں میں اضافے سے عام صارفین متاثر نہیں ہوں گے، صرف کاروباری اداروں کیلئے جائز اضافہ کیا گیا ہے،ہمیں بھی اس اضافے پر تحفظات ہیں مگر یہ کڑوا گھونٹ پینا پڑے گا۔ سینیٹر محسن عزیز نے کہا کہ لطیفے آج کے نہیں پہلے کے ہیں ،اب صرف پڑھا جا رہا ہے،پچھلی حکومت نے اوگرا اور او جی ڈی سی ایل کی سفارشات کے باوجود قیمتیں نہیں بڑھائیں، صدر وزیر اعظم کی سکیورٹی میں کمی نہیں غیر ضروری پروٹوکول میں کمی کی جا رہی ہے،جو پاکستان آئے ہوئے عرصہ ہو گئے ہیں ان کو شہریت دینا کون سا گناہ ہے۔سینیٹر اعظم موسی خیل نے کہا کہ وزیر اعظم کی جانب سے افغانوں اور دیگر قومیتوں کے لوگوں کو شہریت دینے کا اعلان خوش آئند ہے، اگر اس فیصلے پر عمل د درآمد ہوا تو اس پر ہم انہیں شاباش دیں گے، پاکستان کی ترقی میں افغانوں کا کلیدی کردار ہے،ہم اگرسوچ سمجھ کر فیصلے کرتے تو افغانوں کو ہماری زمین میں پناہ لینے کی ضرورت نہ پڑتی،بچوں کے بچے بھی ہوئے ہیں مگر ان کو شہریت نہیں ملی،یہ نا انصافی ہے۔سینیٹر ستارہ ایاز نے کہا کہ افغانوں سمیت دیگر اقوام کے لوگوں کو شہریت دینے کا فیصلہ خوش آئند ہے، اس کی مکمل حمایت کرتے ہیں،کالا باغ ڈیم پر تین صوبوں کی اسمبلیوں نے متفقہ قرارداد پاس کرائیں ہیں اس پر ہمیں خود بحث نہیں کرنی چاہیے،اس کے متبادل ڈیمز تعمیر کیے جائیں۔سینیٹر میر کبیر محمد شاہی نے کہا کہ پاکستان کے اپنے لوگوں کو پانی ،رہائش اور صحت کی سہولیات کی کمی ہے، اس صورتحال میں55لاکھ مہاجرین کو شہریت دینا ٹھیک نہیں،حکومت ان لوگوں کو باعزت اپنے وطن بھیجنے کیلئے اقدامات کرے، 35سال تک ہم نے میزبانی کا حق ادا کیا اب ان کا بوجھ برداشت نہیں کرسکتے، روزانہ 25ہزار افراد افغان سرحد کے ذریعے پاکستان میں داخل ہوتے ہیں، اس صورتحال میں دہشتگردی پر کیسے قابو پایا جا سکتا ہے۔سینیٹر عثمان کاکڑ نے کہا کہ بلوچستان میں پانی 15سو فٹ نیچے چلا گیا ہے،پہاڑی علاقے کے لوگ نقل مکانی پر مجبور ہیں، بلوچستان کیلئے پانی کا مسئلہ حل کرنے کیلئے صرف پانچ سو ارب درکار ہیں،چیف جسٹس بلوچستان کے بھی چیف جسٹس ہیں تو اس صوبے میں پانی کے مسائل کو بھی مدنظر رکھیں ۔کالا باغ ڈیم پر تین صوبے اختلاف رکھتے ہیں، اس پر بحث ہی نہیں ہونی چاہیے۔قومی وسائل کو بچانے کی بات کرنا غداری ہے تو یہ غداری کرتے رہیں گے،غداری کے القابات دینا ترک کرنا ہوگا۔