اسلام آباد (محمد فیضان ) فیڈرل بورڈ آ ف ریونیو کے ڈائریکٹر جنرل کسٹمز انٹیلی جنس شوکت علی کے خلاف نیب تحقیقات کا حکم دے دیا گیا، شوکت علی اور اُن کے شریکِ کار اور فرنٹ مین سابقہ سپاہی کسٹم مشتاق سرگھانہ و دیگر کے خلاف چیئرمین نیب اسلام آباد نے انکوائری کی منظوری دیتے ہوئے کیس نیب راولپنڈی کو سونپ دیا ہے ،درخواست پر ابتدا ئی انکوائری ہو چکی ہے جس میں درخواست کے ساتھ فراہم کردہ دستاویزی شواہد کا ابتدائی جائزہ لیا گیا تھا اب با قا عدہ طور پر کارروائی کو آگے بڑھانے کی منظوری دی گئی ہے۔ ڈائریکٹر جنرل کے خلاف مزید دستاویزی ثبوت بھی نیب کو فراہم کر دئیے گئے ہیں ان میں نجی پاسپورٹ پر بزنس ویزا پر گزشتہ سالوں کے دوران بیرون ملک بالخصوص متحدہ عرب امارات کے کثیر دوروں کے دستاویزات مع فلائٹس کے نام اور نمبر ،اقامہ کی کا پی اور ان کے خلاف کرپشن کے الزام میں چلنے والی وہ محکمانہ انکوائریاں جن پر تحقیقات کا حکم تو دیا گیا مگر وہ کئی سا ل سے زیر التوا ہیں اس کے علاوہ کوئٹہ میں نیب کے ان کے خلاف بنائے گئے کیسز کا ریکارڈ شامل ہے۔اس سلسلے میں درخواست گُزار سیّد عامر شبیر کو بیان ریکارڈ کرنے کے لئے 25 ستمبر کو راولپنڈی طلب کر لیا ہے۔ عامر شبیر نے نیب کو درخواست میں ڈائریکٹر جنرل کسٹمز انٹیلی جنس پر محکمانہ کرپشن اور اقربا پروری کے الزامات عائد کرتے ہوئے موقف اختیار کیا ہے کہ ڈائریکٹر جنرل کسٹمز انٹیلی جنس شوکت علی اپنے فرنٹ مینوں کے ذریعے کروڑوں روپے کرپشن کے ذریعے اکٹھے کرتے ہیں ایک اہم سرکاری عہدے پر ہونے کے باوجود انہوں نے دوبئی میں اقامہ لے رکھا ہے اور وہ ہمیشہ بزنس ویزے پر دوبئی جاتے ہیں درخواست گزار نے ڈائریکٹرکسٹمز ا نٹیلیجنس کے زیر استعمال پاکستان اسلام آباد کے سیکٹر مرکز جی ا لیون میں واقع سمٹ بینک کی برانچ میں موجود کچھ ا کاؤنٹس کی تفصیلات بھی نیب کو فراہم کی ہیں۔ یہ اکاؤنٹ کسی اور کے نام پر ہیں مگر اس کے ذریعے لین دین ڈی جی کسٹمز انٹیلی جنس کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ ان کی فیصل آباد اور کراچی میں خریدی گئی کی کروڑوں کی جائیدادوں کی تفصیلات بھی نیب کو فراہم کی گئیں ہیں جبکہ نیب کو یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ڈی جی کسٹمز نے پاکستان کے ایک لوکل موبائل برانڈ کے خلاف کارروائی ایک کوریا کی مشہور فون کمپنی کے برانڈ کے کہنے پر کی تھی اور اب اس فون کمپنی سے بھی معاملات کر لیے ہیں ۔اس کے علاوہ دستاویزا ت میں کسٹمز انٹیلی جنس کی طرف سے ضبط کی گئی گاڑیوں کی قواعد و ضوابط کے خلاف دوست سرکاری ا فسران اور عزیز و اقارب کو فراہمی بھی شامل ہے۔ ڈائریکٹر جنرل نے وہ گاڑیاں جن کے چیسیز نمبر جعلی طریقے سے تبدیل ہوتے ہیں اور کسٹمز انٹیلی جنس انہیں ضبط کر لیتی ہے وہ اپنے ذا تی دوستوں اور رشتہ داروں کو دے رکھی ہیں ان گاڑیوں میں لینڈ کروزرز اور پراڈو سمیت بڑی مہنگی گاڑیاں شا مل ہیں ۔اسی طرح بتا یا گیا ہے کہ کسٹمز انٹیلی جنس ہیڈ کوارٹر میں کسٹمز ملازمین کو سستی قیمتوں پر اشیا کی فراہمی کے لیے ایک دکان کھولی گئی تھی جس میں کسٹمز انٹیلی جنس کی جانب سے ضبط کئی گئی سمگل شدہ اشیاء بشمول قیمتی ا لیکٹرونکس آلات ایل ائی ڈی ٹی وی وغیرہ رکھی جاتی تھیں چند ایک کے وہ بھی تمام اشیا ڈی جی کسٹمز انٹیلی جسن کے حکم پر ان کے دوستوں اور عزیز و اقارب میں تحفہ کے طور پر بانٹ دی جا تی تھیں اور کسٹمزاہلکاروں کے ذمہ ہوتا تھا کہ وہ ان کی قیمت سرکاری خزانے میں جمع کرائیں ۔یہ دوکان تین ماہ چلنے کے بعد بند ہو گئی تھی کیونکہ کسٹمز کا کو ئی ا ہلکار اس کی ذمہ داری سنبھالنے پر تیا ر نہیں تھا واضح رہے کہ ڈائریکٹر جنرل کسٹمز انٹیلی جنس اس بات کی وضاحت پیش نہیں کر سکے کہ وہ دوبئی نجی پاسپورٹ پر بزنس ویزے پر ہر ماہ کیا لینے یا چھوڑنے جا تے ہیں جبکہ کسٹمز انٹیلی جنس ذرائع کا کہنا ہے کہ کسٹمز سروس کا ہونے کا باعث ان کی بیرون ملک جاتے ہوئے کسی قسم کی چیکنگ نہیں کی جاتی اور ایئر پورٹ تعینات کسٹمز ا ہلکار پروٹوکول کے سا تھ انہیں جہاز کے اندر بٹھا کر آتے ہیں اور ایسا تمام کسٹمز ا فسران کے ساتھ کیا جا تا ہے یعنی کسٹمز ا فسران ایئر پورٹس پر ہر طرح کی چیکنگ سے مستثنیٰ ہو تے ہیں اور یہ پریکٹس شروع سے جاری ہے اس لیے وہ کچھ بھی لے آئیں یا لے جائیں انہیں کو ئی روک ٹوک نہیں ہو تی۔