کراچی(رپورٹ:عمران خان)نیب کی 5رکنی ٹیم نے قومی ادارہ امراض قلب پر مارے گئے 2چھاپوں میں ملنے والے ریکارڈ کی بنیاد پر 2اعلیٰ افسران کے خلاف تحقیقات تیز کر دی ہیں۔ ذرائع کے مطابق گزشتہ ہفتے کے دوران پے درپے مارے گئے چھاپوں کی بنیاد ادارے کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ایڈمنسٹریشن کی عدالت میں دائر کردہ آئینی درخواست بنی جس میں نہ صرف اقربا پروری ،کرپشن اور غیر قانونی سرگرمیوں کے ثبوت بھی دیے گئے ہیں۔161 صفحات پر مشتمل درخواست میں موقف اختیار کیا گیا کہ حکومت سندھ نے موجودہ رکن قومی اسمبلی کے دباؤ پر تعینات ایگزیکٹو ڈائریکٹر کو ریٹائرمنٹ کے اگلے ہی روز9 مئی کو4برس کے کنٹریکٹ پر دوبارہ تعینات کیا۔دوبارہ کنٹریکٹ کی حد عمر بھی عدالتی فیصلے کے برخلاف 60سے بڑھا کر 65 سال کی گئی ۔کنٹریکٹ پر تعینات 2افسر ماہانہ 60لاکھ سے زائد تنخواہ و مراعات لے رہے ہیں اور ادارے کی کئی گاڑیاں ان کے اور اہل خانہ کے استعمال میں ہیں۔پہلے ہی ٹرسٹ کے تحت چلنے والے ادارے کیلئے غیر قانونی ٹرسٹ بنایا گیاجس کے ارکان میں دونوں ڈاکٹر بھی ہیں ۔ نئے ٹرسٹ کا آڈٹ کرایا گیا نہ یہ معلوم ہے کہ اس کا اکاؤنٹ کہاں ہے اوراسے کون چلا رہا ہے۔عدالت ریکارڈ منگا کر پوچھے کہ ڈاکٹر ندیم رضوی و عبداللطیف سمیت3اعلیٰ افسر کیسے تعینات ہوئے۔ڈاکٹر ندیم رضوی نے ادارے میں کئی نئی پوسٹیں تخلیق کرکے خود کو ان کا سربراہ مقرر کر دیا ۔ڈائریکٹر ری ہیبلی ٹیشن، ڈائریکٹر سیٹلائٹ سینٹرز، ڈائریکٹر کیتھ لیب، چیئرمین اکیڈمک کمیٹی،تدریسی فیکلٹی کے سربراہ کا ادارے کے سروس اسٹرکچر میں ذکر ہی نہیں۔ان عہدوں کیلئے اخبارات میں اشتہارات دیے گئے نہ ہی ان عہدوں کے مشاہرہ کا کہیں ذکر ہے۔ ڈاکٹر ندیم رضوی کی ایک سپلائر پر خصوصی نوازشات ہیں جو اسپتال کو 3ارب سے زائد کی ادویات اور سرجیکل آئٹمز و اسٹنٹ سپلائی کرتا ہے ۔یہ سپلائر ذیلی کمپنی بنا کر سپلائی جاری رکھے ہوئے۔ ڈاکٹر ندیم رضوی بنیادی طور پر اسسٹنٹ پروفیسر ہیں مگر قواعد و ضوابط کی دھجیاں بکھیرتےہوئے انہیں دگنی ترقی دے کر براہ راست پروفیسر کا عہدہ دیا گیا۔ پٹیشن کی سماعت 3 اکتوبر کو ہوگی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ گزشتہ روز نیب کے طلب کرنے پر این آئی سی وی ڈی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر اسپتال کی چیف آپریٹنگ آفیسر کے ہمراہ پیش ہوئے اور ڈیڑھ گھنٹے سے زائد وقت تک نیب ٹیم کے سوالات کے جوابات دیئے جبکہ پروفیسر ندیم رضوی بیرون ملک ہونے کے باعث نیب میں پیش نہیں ہوئے۔