اسلام آباد (رپورٹ: اختر صدیقی/محمد فیضان/ فیض احمد) اسلام آباد ہائیکورٹ نے سابق وزیراعظم نواز شریف ان کی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن (ر) محمد صفدر کو احتساب عدالت کی جانب سے ایون فیلڈ ریفرنس میں دی گئی سزا معطل کرتے ہوئے انہیں ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دے دیا۔ مچلکے جمع کرانے کے بعد تینوں کو اڈیالہ جیل راولپنڈی سے رہا کر دیا گیا، لیکن لیگی قائد اور ان کے اہلخانہ کے لئے مشکلات ابھی ختم نہیں ہوئی ہیں، انہیں ناصرف دیگر ریفرنسز کا سامنا ہے، جس میں سزا کا خطرہ موجود ہے۔ اس کے علاوہ ایون فیلڈ ریفرنس میں بھی بریت کے لئے انہیں قانونی جنگ لڑنا ہوگی۔ معاملہ سپریم کورٹ میں جائے گا۔ قانونی ماہرین کے مطابق ہائیکورٹ کے فیصلے سے نیب کا کیس کمزور ہوا اور دیگر ریفرنسز پر بھی اس کے اثرات مرتب ہونگے۔ بدھ کو اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب پر مشتمل دو رکنی بنچ نے سزا معطلی کی درخواستوں پر مختصر فیصلہ سنایا۔ عدالت نے سزا معطلی اور ضمانت کی وجوہات تفصیلی فیصلے میں دینے کا اعلان کیا۔ سماعت کے دوران پراسیکیوٹر نیب اکرم قریشی نے اپنے دلائل مکمل کیے تو نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے مختصر جوابی دلائل دیئے، جس کے بعد عدالت نے فیصلہ محفوظ کیا۔ 3بجتے ہی جسٹس اطہر من اللہ نے فیصلہ سناتے ہوئے نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن (ر) محمد صفدر کو احتساب عدالت کی جانب سے سنائی جانے والی سزائیں معطل کر دیں اور انہیں رہا کرنے کا بھی حکم جاری کیا۔ عدالت نے فیصلے میں قرار دیا کہ احتساب عدالت کا فیصلہ اور سزائیں معطل کی جاتی ہیں، جس کی وجوہات بعد میں تفصیلی فیصلے میں دی جائیں گی۔ عدالت کی جانب سے نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کی اپیلوں کے فیصلے تک سزائیں معطل کی گئیں، جبکہ عدالت نے تینوں شخصیات کو 5،5 لاکھ روپے کے ضمانتی مچلکے جمع کرانے کا بھی حکم دیا۔ عدالتی فیصلے کے بعد مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر چوہدری تنویر نے تینوں کے ضمانتی مچلکے جمع کرا دیئے اور روبکار موصول ہونے کے بعد تینوں کو اڈیالہ جیل سے رہا کر دیا گیا۔ فیصلہ سنتے ہی ن لیگی کارکنوں نےاسلام آباد ہائیکورٹ کے باہر بھنگڑے ڈالے۔ اس سے قبل سماعت کے دوران نیب پراسیکیوٹر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ کیس میں مخصوص حالات یہ ہیں کہ انہوں نے گلف اسٹیل ملز 1978 میں فروخت کی، مجرمان کے مطابق طارق شفیع اور عبداللہ قائد آہلی کے درمیان فروخت کا معاہدہ ہوا اور یہ مؤقف سپریم کورٹ میں دائر درخواستوں میں اپنایا گیا تھا۔ نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ مجرمان کہتے ہیں کہ 1980میں مزید 25فیصد شیئرز فروخت ہوئے اور فروخت سے حاصل 12ملین درہم قطری شہزادے کے پاس سرمایہ کاری میں استعمال ہوئے اور اسی سے ایون فیلڈ پراپرٹیز خریدی۔ نیب پراسیکیوٹر نے کہا مجرمان کے مطابق لندن فلیٹس کی خریداری کے لیے رقم کی بنیاد یہی 12ملین درہم ہیں اور تحقیقات کے دوران معلوم ہوا کہ فروخت کا معاہدہ جعلی ہے اور ایسا کوئی ریکارڈ دبئی کے ریکارڈ میں موجود ہی نہیں ہے۔نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ دبئی کی حکومت نے بتایا 25 فیصد شیئرز کی فروخت کا معاہدہ ان کے پاس نہیں ہے۔ نیب پراسیکیوٹر نے دلائل کے دوران کہا کہ مریم نواز کی طرف سے سپریم کورٹ میں متفرق درخواست کے ذریعے ایک مؤقف لیا گیا اور انہوں نے سپریم کورٹ میں سی ایم اے نمبر 7531کے ذریعے دستاویزات جمع کرائیں جس میں قطری خاندان سے کاروباری معاملات کا ذکر کیا گیا۔اکرم قریشی نے کہا ہمارے پاس بھی یہی مؤقف اپنایا گیا کہ لندن فلیٹس کی رقم گلف اسٹیل ملز سے آئی جس پر جسٹس گل حسن اورنگزیب نے سوال کیا ہمارے پاس کا کیا مطلب، مجرمان تو پیش ہی نہیں ہوئے۔ نیب پراسیکیوٹر نے اس پر کہا، جے آئی ٹی میں مجرموں کا یہ مؤقف تھا، جس پر جسٹس گل حسن نے کہا آپ جے آئی ٹی نہیں ہیں، جے آئی ٹی اور نیب میں بہت فرق ہے۔نیب پراسیکیوٹر اکرم قریشی نے کہا مریم نواز کی ملکیت چھپانے کے لیے جعلی ٹرسٹ ڈیڈ بنائی گئی، جس پر جسٹس گل حسن نے سوال کیا آپ کہتے ہیں کہ نواز شریف نے مریم کے نام پر فلیٹس بنائے جس پر انہوں نے جواب دیا جی، نواز شریف فلیٹس کے اصل مالک تھے۔ جس پر جسٹس اطہر من اللہ نے نیب پراسیکیوٹر کو کہا تو پھر نواز شریف کی ملکیت کا کوئی ثبوت بتا دیں، ہم کیسے فرض کریں، آپ کی اتنی بڑی تفتیش کے بعد نواز شریف کا فلیٹس سے تعلق نہیں بن پا رہا، نواز شریف تو کہیں بھی نظر نہیں آرہا۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا آپ تفتیش سے نواز شریف کا تعلق نہیں جوڑ سکے تو ہم فرض کیسے کرلیں۔ نیب پراسیکیوٹر نے کہا 2012 تک مریم نواز ان فلیٹس کی بینفشل اونر تھی اور بعد میں ایک جعلی ٹرسٹ ڈیڈ بنا کر ٹرسٹی بنیں، اس ٹرسٹ ڈیڈ میں کیلیبری فونٹ کا استعمال ہوا جو ان دنوں دستیاب ہی نہیں تھا اور ٹرسٹ ڈیڈ میں تاریخیں بھی بدلی گئیں۔ اس موقع پر جسٹس میاں گل حسن نے سوال کیا فرض کریں مریم نے جعلی دستاویزات پیش کیں، یہ بتائیں ذرائع سے زیادہ آمدن پر سزا کیسے ہوسکتی ہے، اس پر نیب پراسیکیوٹر نے کہا کبھی ادھر سے بھی کوئی سوال پوچھ لیں، سب سوالات مجھ سے ہی پوچھنے ہیں جس پر عدالت نے کہا دلائل آپ کے ہیں اور سوال بھی آپ سے ہوگا۔ عدالت نے پوچھا 1993میں مریم نواز کی عمر کیا تھی جس پر اکرم قریشی نے بتایا اس وقت مریم نواز 20سال کی تھیں۔ عدالت نے سوال کیا آپ کا موقف ہے کہ 1993میں نواز شریف نے لندن فلیٹس خریدے تو مریم نواز پر آمدن سے زائد اثاثوں کا کیس کیسے بن گیا، آپ کا کیس ہے کہ مالک مریم نواز نہیں بلکہ نواز شریف ہیں۔ جس پر نیب پراسیکیوٹر نے جواب دیا، جی میں یہی کہہ رہا ہوں، مالک مریم نواز نہیں، بلکہ نواز شریف ہیں۔ یہ میں نہیں کہتا یہ قانون کہتا ہے کہ آپ فرض کریں۔ عدالت نے سوال کیا آپ یہ کہتے ہیں ان بچوں کے دادا کا وہاں کوئی کاروبار نہیں تھا، جس پر اکرم قریشی نے کہا یہ ان کا مؤقف ہے کہ طارق شفیع ان کے دادا کا کاروبار سنبھال رہے تھے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کوئی ایسا ریکارڈر دیں جو نواز شریف کا کسی بھی حیثیت میں کردار ثابت کرتا ہو، کیا صرف مفروضے کی بنیاد پر سزا ہوسکتی ہے، جس پر نیب پراسیکیوٹر نے کہا قانون شہادت تو ایسا کرنے کا کہتا ہے، میں نے سپریم کورٹ کا فیصلہ بھی بتایا ہے جس پر جسٹس اطہر من اللہ نے کہا وہ منارٹی ججمنٹ ہے۔ اکرم قریشی نے کہا قانون شہادت کے اصول عام مقدمات میں مختلف جبکہ اس کیس میں مختلف ہیں۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا سپریم کورٹ کے طے کردہ اصول کے مطابق نیب کو تفصیلی تفتیش کرنی تھی، ان کے معلوم ذرائع آمدن کہاں پر تفتیش کیے، وہ دستاویزات کون سی ہیں جس پر نیب پراسیکیوٹر نے کہا سپریم کورٹ کا لا یہاں قابل عمل نہیں ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ کیا سپریم کورٹ کا لا قابل عمل نہیں ہے، معلوم ذرائع آمدن کا چارٹ کہاں پر ہے، کیا میں یہ لکھ دوں کہ اس کیس میں سپریم کورٹ لا کا اطلاق نہیں ہوتا جس پر نیب پراسیکیوٹر نے کہا جی لکھ دیں۔ اس کیس میں سپریم کورٹ لا کا اطلاق نہیں ہوتا۔ جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ کیا پیش کردہ ذرائع آمدن کا چارٹ غیر متعلقہ ہے، نیب پراسیکیوٹر نے جواب دیا، جی ہاں پیش کردہ ذرائع آمدن کا چارٹ غیر متعلقہ ہے۔جسٹس اطہر من اللہ نے سوال کیا آپ کہتے ہیں جائیدادیں بیرون ملک ہیں، اس لیے بار ثبوت نیب پر نہیں آتا جس پر نیب پراسیکیوٹر نے کہا جی بالکل ایسا ہی ہے، بار ثبوت نیب پر نہیں آتا۔فاضل جج نے سوال کیا اس طرح کی ایکسرسائز کسی عوامی عہدیدار کے کیس میں کی گئی؟ ہم صدور اور وزرا اعظم سے متعلق پوچھ رہے ہیں، جس پر نیب پراسیکیوٹر نے کہا حاکم علی زرداری اور احمد ریاض شیخ کے مقدمات میں ایسا ہی کیا گیا اور دونوں کے مقدمات میں بار ثبوت ملزمان پر تھا۔نیب پراسیکیوٹر اکرم قریشی نے اپنے دلائل مکمل کیے جس کے بعد ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل جہانزیب بھروانہ نے مختصر دلائل کی استدعا کی اور کہا کہ مریم نواز کی پیش کردہ ٹرسٹ ڈیڈ جعلی قرار دی گئی جو کہیں رجسٹرڈ نہیں ہے اور یہ ٹرسٹ ڈیڈ انہوں نے خود پیش کی جب کہ جے آئی ٹی کو خاص کردار دیا گیا۔ جسٹس اطہر من اللہ نے ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل سے سوال کیا آپ اکرم قریشی کی حمایت کرتے ہیں کہ یہ فرسٹ امپریشن کا کیس ہے، اس میں رائج اصولوں کا اطلاق نہیں ہوتا۔جس پر جہانزیب بھروانہ نے کہا جی یہ فرسٹ امپریشن کا کیس ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے سوال کیا معلوم ذرائع آمدن کا چارٹ کس نے تیار کیا تھا، اسے بنانے والا کہاں پر ہے، اگر وہ آتا تو اس پر جرح ہوتی کہ کیسے بنایا گیا۔جسٹس میاں گل حسن نے استفسار کیا اس کیس میں اتنی جلدی کیا ہے، یہ کیس نیب کے پراسیکیوٹر جنرل کے ذریعے لڑا جارہا ہے۔جسٹس اطہر من اللہ نے کہا مریم نواز کی معاونت تو تب ہوتی جب جائیداد خریداری میں کوئی کردار ہوتا جس پر نیب پراسیکیوٹر نے کہا جائیداد کی قیمت لازمی شرائط نہیں، فلیٹس موجود ہیں، پرتعیش لائف اسٹائل سامنے ہے اور میڈیا انٹرویوز بھی موجود ہیں۔ دریں اثنا نواز شریف کی رہا ئی کے باوجود ابھی بھی ان کے سر پر احتساب عدالت میں زیر سماعت باقی مقدمات کی تلوار لٹک رہی ہے لیکن ہائیکورٹ کے فیصلے کا اثر نیب عدالت میں زیر سماعت دیگر مقدمات پر بھی پڑنے کا امکان ہے، جس کا زیادہ تر فائدہ سابق وزیر اعظم کو پہنچنے کی توقع ہے، کیونکہ جب تک ان مقدمات میں نواز شریف پر کرپشن یا غیر قانونی ذرائع آمدن سے اثاثے بنانے کی بات ثابت نہیں ہوجائے گی۔ احتساب عدالت ان کو سزا نہیں دے سکے گی۔ اپنے فیصلے میں ہائیکورٹ نے اس نکتے کو صاف کر دیا ہے۔ اس لیے اب احتساب عدالت کو سوچ سمجھ کر باقی مقدمات میں فیصلہ دینا ہوگا۔ سابق وزیراعظم کی رہائی سے مسلم لیگ ن میں کتنی جان پڑی ہے، اس کا فیصلہ آنے والے ضمنی انتخابات میں ہوجائے گا، جبکہ ان کی رہائی پر این آر او کا شک ظاہر کرنے والوں کو سابق وزیر اعظم نواز شریف کاسیاسی رویہ بتائے گا کہ ان کی رہائی این آر او کا نتیجہ ہے یا پھر واقعی وہ جنگ لڑ کر رہا ہوئے ہیں لیکن اس تمام صورتحال اور ہائیکورٹ میں کیس چلنے کے بعد یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ نیب کا کیس کمزور بنیادوں پر تھا نیب اسلام آباد ہائیکورٹ میں نواز شریف پر کرپشن کے الزامات ثابت نہیں کر سکا اور اس کے ساتھ ان دو سوالوں کا جواب دینے میں مکمل ناکام رہا ہے کہ کیا نواز شریف کی آمدن کا اندازہ لگایا گیا تھا اگر نہیں تو نیب کیسے کہہ سکتا ہے کہ ان کے ا ثاثہ جات آمدن سے زائد ہیں، اگر اثاثہ جات نواز شریف کے تھے تو پھر مریم اور صفدر کو کیوں سزا دی گئی، جبکہ نیب اسلام آباد ہائیکورٹ میں یہ ثابت کرنے میں بھی ناکام رہا ہے کہ نواز شریف کے اثاثہ جات کرپشن کے پیسے سے بنائے گئے تھے اس ضمن میں فیڈرل بورڈ آ ف ریونیو کے ایک اعلیٰ ذرائع نے ‘‘امت’’ کو بتایا ہے کہ اگر نیب یا حکومت نواز شریف کی بیرون ملک دولت واپس پا کستان لانا چاہتے ہیں تو آئندہ آنے والے دنوں میں نیب کو اعلیٰ عدالتوں کو یہ ثابت کرنا ہو گا کہ نواز شریف کے اثاثہ جات غیر قانونی دولت اکٹھی کر کے بنائے گئے ہیں اور سابق وزیر اعظم کے خلاف کرپشن کے ثبوت لانا ہوں گے۔ موجودہ ملکی قوانین کے تحت نیب یا حکومت سابق وزیر اعظم پر کرپشن کے الزامات ثابت کیے بغیر ان کی بیرون ملک تو کیا پا کستان کے اندر دولت پر بھی ہاتھ نہیں ڈال سکے گی۔ ایف بی آرکے قواعد اس ضمن میں یہ اجازت دیتے ہیں کہ اگر کوئی تھرڈ پارٹی کسی کے حق میں یہ اقرار کرتی ہے کہ یہ پیسے اس نے سرمایہ کاری کے لیے دیئے ہیں تو ایف بی آر کو اس پر یقین لا نا پڑتا ہے انہوں نے انکشاف کیا ہے کہ انکم ٹیکس کے کیسز میں اس قسم کی کئی مثالیں ایف بی آر کے کیسوں میں موجود ہیں جہاں لوگوں نے بیرون ملک پا کستانی عزیز و اقارب سے خط منگوا کر ایف بی آر کو دیئے کہ ان کے پاس بھاری رقوم اور لیکن نیب نے سابق وزیراعظم کے خلاف کیسز میں ایف بی آر سے کوئی قانونی مدد نہیں لی، غیر قانونی اثاثہ جات کے حوالے سے ایف بی آر کے قوانین بھی بڑے واضح ہیں۔ علاوہ ازیں روزنامہ ‘‘امت’’ سے گفتگو میں سابق صدر سپریم کورٹ بار علی احمد کرد ایڈووکیٹ نے کہا کہ میں نے تو پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ نوازشریف کے خلاف بنایا گیا مقدمہ خود ساختہ ہے، جب بھی کوئی عدالت آئین و قانون کے مطابق فیصلہ کرے گی تو لازمی طور پر فیصلہ نواز شریف اور دیگر کے حق میں ہی آئیگا۔ اب فیصلہ نواز شریف کے حق میں ہوا ہے۔ باقی ریفرنسز کا بھی یہی حال ہوگا۔ جسٹس (ر)ارشد علی نے کہا کہ لگ رہا ہے کہ نیب وکلا کی ٹیم نے کوئی تیاری نہیں کی اور جان بوجھ کر راستہ دیا، تاہم ابھی اصل کیس باقی ہے،اگرتونیب نے اسی طرح کے دلائل دیے توپھر عدالت عالیہ احتساب عدالت کا فیصلہ کالعدم بھی قرار دے سکتی ہے۔ اسلم گھمن ایڈووکیٹ نے کہاکہ فیصلہ معطل ہوا ہے ابھی اس میں روح باقی ہے جس کے دلائل میں بہت کچھ ہوسکتاہے ۔انہوں نے کہا کہ ضمانت پر رہائی سے استغاثہ کا کیس کافی حد تک کمزور ہو گیا ہے جس کا فائدہ ملزمان کو ہی جائیگا۔ کامران ایڈووکیٹ نے کہا کہ جس معاملے میں احتساب عدالت نے سزا سنائی تھی وہ نیب عدالت عالیہ میں ثابت نہیں کرسکا۔ اس لیے کہ حقائق اور شواہد تھے ہی نہیں اور نہ ہی نیب نے اپنا کام کیا ہے۔ فیصل ایڈووکیٹ نے کہاکہ سپریم کورٹ میں اس کیس کی سماعت کے وقت عدالت اپنے پہلے سے موجود فیصلے کو کس نظر سے دیکھتی ہے اور کیا فیصلہ کرتی ہے وہ وقت آنے پر پتہ چلے گا۔ احمد اویس ایڈووکیٹ نے کہا کہ ایون فیلڈ کیس میں زیادہ ثبوت نہ ہونے کی وجہ سے مریم نواز کو ریلیف مل سکتا ہے مگر جہاں تک نواز شریف کی ذات کا تعلق ہے تو ان کے خلاف اب العزیزیہ ریفرنس کی سماعت جاری ہے یہ معاملہ ان کے براہ راست خلاف جائیگا۔ اس لیے بھی لگ یہی رہا ہے کہ نواز شریف کو عدالت عالیہ کے حتمی فیصلہ میں واپس جیل جانا پڑ سکتا ہے ابھی تو دو ریفرنسز کی سماعت باقی ہے ان کا کیا نتیجہ نکلتا ہے وہ بھی ابھی سامنے نہیں ہے۔ایک بات یہ بھی اہم ہے کہ میاں نوازشریف اور مریم نواز کے معاملے کا فائدہ اسحاق ڈار اور حسین نواز اور حسن نواز بھی اٹھا سکتے ہیں مگر اس کے لیے انہیں پہلے خود کو سرنڈر کرنا ہوگا اور احتساب عدالت میں پیش ہونا ہوگا۔ سب سے اہم معاملہ نوازشریف کا ہے ان کے خلاف چلائے گئے مقدمات میں ان کو مستقبل میں ریلیف کم ملنے کا امکان ہے۔
٭٭٭٭٭